سوال:
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الا أنبئكم باكبر الكبائر؟ ثلاثا الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وشهادة الزور او قول الزور، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم متكنا، فجلس فما زال يكررها حتى قلنا : ليته سكت .
میں آپ کو بتارہا ہوں کہ تین گناہ سب سے بڑے ہیں: کسی کو اللہ کا شریک سمجھنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، پھر اسی بات کو اتنی بار دہرایا کہ ہم نے آرزو کی کہ آپ خاموشی فرمالیں۔
(صحيح البخاري : 2654، صحیح مسلم : 87)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ زور جھوٹی گواہی پر کیوں دیا اور اس کو تکرار کے ساتھ ذکر کیا، جبکہ سب سے بڑا گناہ تو شرک ہے؟
جواب :
اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے بڑا گناہ شرک ہے، مگر یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معلوم تھی اور کئی بار بتادی گئی تھی ، جبکہ یہاں جھوٹی گواہی کی مذمت اور قباحت بیان کرنا مقصود تھی، لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ اس پر زیادہ زور دیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سامعین کے مطابق بات کرتے تھے، حکمت اور بلاغت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ معاشرے میں جس خرابی کا زیادہ اندیشہ ہو، اس کی زیادہ مذمت بیان کی جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطب کو وہ نصیحت کرتے تھے، جس کی اسے اس وقت زیادہ ضرورت ہو۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إن رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم : أوصني، قال : لا تغضب فردد مرارا ، قال : لا تغضب .
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : آپ مجھے نصیحت فرما دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غصہ مت کریں، پھر فرمایا : غصہ مت کریں ،اسے بار بار دہراتے رہے۔
(صحيح البخاري : 6116)