سوال:
جو شخص عدالت میں کسی کے خلاف حلف اٹھا کر جھوٹی گواہی دے، تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ ہے، ایسا شخص فاسق ہے، البتہ اس گواہی میں اٹھائے گئے حلف پر کفارہ نہیں۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
الكبائر الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس
”یہ گناہ کبیرہ ہیں: شرک، والدین کی نافرمانی، ناحق قتل اور جھوٹی قسم۔“
(صحيح البخاري: 6675)
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
”جو کسی بھی معاملے میں مسلمان آدمی سے مال چھیننے کے لیے جھوٹی قسم کھاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کو ایسی حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا۔“ پس یہ آیت نازل ہوئی: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا﴾ (آل عمران: 77)
”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی جھوٹی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں۔“اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ آکر پوچھنے لگے: ابو عبدالرحمن (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) آپ کیا بیان کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ حدیث بیان کر رہے ہیں، تو وہ کہنے لگے: وہ سچ کہہ رہے ہیں: یہ آیت میرے ہی متعلق اتری تھی، میرے اور میری قوم کے ایک آدمی کے درمیان زمین کا جھگڑا تھا، میں وہ جھگڑا لے کر نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے پاس گیا تو آپ نے فرمایا: اپنی دلیل لائیں۔ میرے پاس دلیل نہیں تھی، تو آپ نے دوسرے آدمی سے کہا: قسم اٹھاؤ۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! قسم تو یہ اٹھا لے گا، تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جو کسی بھی معاملے میں مسلمان آدمی سے مال چھینے کے لیے جھوٹی قسم کھاتا ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ کو ایسی حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا۔ تو یہ آیت نازل ہوئی: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا﴾ (آل عمران: 77)”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی جھوٹی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں۔“
(صحيح البخاري: 2666، صحيح مسلم: 138/220)