جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، چوری اور ڈاکہ
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام – مکمل کتاب کا لنک

جھوٹی گواہی دینا: ایک کبیرہ گناہ

رحمن کے سچے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ﴾ (الفرقان 72)
’’اور وہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔‘‘

جھوٹی گواہی کی تباہ کاریاں

◈ قاضی کا فیصلہ گواہی پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر گواہ جھوٹا ہو اور قاضی اسے نہ پہچان سکے تو قاضی کے غلط فیصلے کی اصل وجہ وہ جھوٹا گواہ ہوتا ہے۔
◈ جھوٹی گواہی کی وجہ سے:
❀ کسی معصوم کو موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔
❀ کسی کے مالی حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا سکتا ہے۔
اسی لیے جھوٹی گواہی کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی تنبیہ

ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’بے شک میں انسان ہوں۔ تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو۔ تم میں سے بعض اپنی دلیل (جھوٹی گواہی) پیش کرنے میں دوسرے فریق سے زیادہ تیز اور چرب زبان ہوتے ہیں۔ پس میں جو کچھ سنوں گا اس کے مطابق فیصلہ دے دوں گا۔ اگر میں کسی شخص کو اس کے بھائی کا حق یا حصہ دے دوں تو میں اسے جہنم کی آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں‘‘۔

(بخاری، الاحکام، باب: موعظۃ الامام للخصوم 7169، مسلم۔ الاقضیہ۔ باب الحکم بالظاہر واللحن بالحجہ 1713)

ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہیں۔ سنو! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی (کبیرہ گناہ ہیں)۔ آپ بار بار دھراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش آپ سکوت فرمائیں‘‘۔

(بخاری۔ الشھادات باب ما قیل فی شھادۃ الزور 2654، مسلم: الایمان، باب: بیان الکبائر واکبرھا 87)

◈ جھوٹی گواہی:
❀ کسی مسلمان کے مال، عزت یا جان کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
❀ بہت سے لوگوں کے حقوق ضائع ہو جاتے ہیں۔
❀ معصوموں پر ظلم ہوتا ہے۔
❀ نااہل افراد کو وہ مل جاتا ہے جس کے وہ مستحق نہیں ہوتے۔

◈ جھوٹی گواہی میں یہ بھی شامل ہے کہ:
❀ کوئی شخص کسی غیر محتاج کو زکوٰۃ دلوانے کے لیے سفارش کرے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ مستحق نہیں۔
❀ نیت نیکی کی ہو، مگر عمل جھوٹ ہو تو وہ بھی کبیرہ گناہ ہے۔

مسلمانوں کی حرمت

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’ایک مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے‘‘۔

(مسلم۔ البر والصلہ والاداب باب تحریم ظلم المسلم 2564)

 لوگوں کا مال ہتھیانے کے لیے جھوٹی قسم کھانا

إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَـٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٧٧﴾ (آل عمران 77)
’’بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں۔ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے بات چیت کرے گا نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا۔ نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘

پس منظر: اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کا واقعہ

◈ اپنے چچا زاد بھائی سے کنویں کے جھگڑے پر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔
◈ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’دلیل تمہارے ذمہ ہے یا تمہارا بھائی قسم اٹھائے گا‘‘۔

◈ اشعث نے کہا: ’’وہ تو جھوٹی قسم کھا کر میرا مال لے جائے گا۔‘‘
◈ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جو شخص کسی کا مال ہتھیانے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائے، وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضب ناک ہو گا‘‘۔

(بخاری۔ التفسیر۔ باب ان الذین یشترون بعھداللہ وایمانھم۔ 4549، مسلم۔ الایمان۔ باب وعید من اقتطع حق مسلم 138)

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’جو شخص اپنی جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا حق (مال) لے لے تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم واجب اور جنت حرام کر دیتا ہے، چاہے وہ مال تھوڑا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔

(مسلم۔ الایمان۔ باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرہ بالنار 137)

مال فروخت کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھانا

رزق حلال کے لیے تجارت ایک عظیم ذریعہ ہے، لیکن کچھ لوگ جھوٹ بول کر یا جھوٹی قسم کھا کر مال فروخت کرتے ہیں۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’جس نے عصر کے بعد سودا بیچا اور قسم اٹھا کر کہا کہ میں نے خود اتنے کا خریدا ہے حالانکہ وہ جھوٹ بول رہا تھا، اور خریدار نے اسے سچ سمجھ کر خرید لیا، تو اللہ قیامت کے دن نہ اس سے بات کرے گا، نہ اس کی طرف دیکھے گا، نہ اس کو پاک کرے گا بلکہ اس کے لیے درد ناک عذاب ہو گا‘‘۔

(بخاری 2369، مسلم 108)

یہ حکم عام ہے، صرف عصر کے بعد تک محدود نہیں۔ چونکہ عصر کے بعد تجارت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے خاص ذکر آیا۔

جھوٹی قسموں والے تاجروں کا انجام

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا‘‘۔

صحابہ نے پوچھا وہ کون لوگ ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
❶ تکبر سے ٹخنوں سے نیچے کپڑا گھسیٹنے والا
❷ احسان جتا کر دینے والا
❸ جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنے والا
(مسلم 106)

چوری کرنا

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٣٨﴾  (المائدہ 38)
’’چوری کرنے والے مرد اور عورت کا ہاتھ کاٹو۔ یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا، اللہ کی طرف سے عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ قوت و حکمت والا ہے۔‘‘

چوری کی حد

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

’’ایک چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ مالیت کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے‘‘۔

(بخاری۔ الحدود، 6789، مسلم۔ الحدود باب حدالسرقہ ونصابھا 1684)

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹتا‘‘۔

(بخاری 3733، مسلم 1688)

چوری کے دوران ایمان کا زوال

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’زانی، شرابی اور چور جب جرم کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا‘‘۔

(بخاری 2475، مسلم 57)

حاجیوں کی چوری کا گناہ

نبی ﷺ نے فرمایا:

’’میں نے جہنم میں ایک شخص کو دیکھا جو حاجیوں کا سامان چوری کرتا اور جھوٹ بولتا تھا کہ لاٹھی سے اٹک گیا‘‘۔

(مسلم۔ الکسوف 904)

مال غنیمت کی چوری

◈ ایک صحابی نے مرنے والے کو شہید کہا، آپ ﷺ نے فرمایا:

’’نہیں، وہ مال غنیمت میں سے چادر چرا کر جہنم میں گیا‘‘۔

(بخاری 3074، مسلم 114)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

’’اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز اور مال غنیمت میں سے چوری کیے گئے مال کا صدقہ قبول نہیں کرتا‘‘۔

(مسلم 224)

 ڈاکہ ڈالنا اور ظلم سے مال کھانا

اگر کوئی مسلح گروہ:
◈ قافلوں پر حملہ کرے
◈ قتل، اغوا اور لوٹ مار کرے
◈ عورتوں کی بے حرمتی کرے
◈ دہشت گردی پھیلائے

تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے یہ سزا بیان فرمائی:
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٣٣﴾ (المائدہ 33)
"ان کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، یہی ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا پھانسی دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹ دیئے جائیں۔ یا وطن سے جلا وطن کر دیئے جائیں۔ یہ ان کی دنیوی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے۔”

زمین پر ناحق قبضہ

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

’’جو ایک بالشت زمین ظلم سے لے گا، اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا‘‘۔

(بخاری 2453، مسلم 1612)

مظلوم کی بد دعا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

’’مظلوم کی بددعا سے بچو، اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں‘‘۔

(بخاری 2448، مسلم 19)

زمین کے نشانات بدلنا

ابو طفیل عامر بن وائلہ بیان کرتے ہیں:
علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے والدین پر لعنت کی، غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا، بدعتی کو پناہ دی یا زمین کے نشانات بدلے، ان سب پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔
(مسلم 1978)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1