سوال:
کیا ماضی کے کسی معاملے پر جھوٹی قسم کھانے سے کفارہ لازم ہوتا ہے؟
جواب:
ماضی کے کسی معاملے پر جھوٹی قسم کھانے سے کفارہ لازم نہیں ہوتا، البتہ ایسا شخص گناہ گار ہوگا، مثلاً کوئی شخص کہے کہ اللہ کی قسم! میں نے فلاں شخص کو اتنے روپے قرض دیے تھے، مگر دیے نہ ہوں، تو اس پر کفارہ لازم نہ ہوگا، البتہ یہ گناہ گار ہے، اس پر توبہ لازم ہے۔ کفارہ حال یا مستقبل کے کسی معاملے پر قسم اٹھا کر اسے توڑنے پر واجب ہوتا ہے۔
❀ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو کسی بھی معاملے میں مسلمان آدمی سے مال چھیننے کے لیے جھوٹی قسم کھاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کو ایسی حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا۔ پس یہ آیت نازل ہوئی:﴿إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا﴾ (آل عمران : 77)(جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی جھوٹی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں۔)اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ آکر پوچھنے لگے: ابو عبدالرحمن (عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) آپ کیا بیان کر رہے ہیں؟ ہم نے کہا: یہ حدیث بیان کر رہے ہیں، تو وہ کہنے لگے: وہ سچ کہہ رہے ہیں: یہ آیت میرے ہی متعلق اتری تھی، میرے اور میری قوم کے ایک آدمی کے درمیان زمین کا جھگڑا تھا، میں وہ جھگڑا لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، تو آپ نے فرمایا: اپنی دلیل لائیں۔ میرے پاس دلیل نہیں تھی، تو آپ نے دوسرے آدمی سے کہا: قسم اٹھاؤ۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! قسم تو یہ اٹھا لے گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی بھی معاملے میں مسلمان آدمی سے مال چھیننے کے لیے جھوٹی قسم کھاتا ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ کو ایسی حالت میں ملے گا کہ اللہ اس سے ناراض ہوگا۔ تو یہ آیت نازل ہوئی:﴿إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا﴾ (آل عمران : 77)(جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی جھوٹی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں۔)“
(صحيح البخاري : 2666، صحیح مسلم : 220/138)