جھوٹی قسم کا کفارہ: مکمل شرعی رہنمائی اور دلائل
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 3، توحید و سنت کے مسائل، صفحہ 30

جھوٹی قسم کا کفارہ: ایک تفصیلی شرعی وضاحت

سوال:

اگر کسی شخص نے جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھالی، اور بعد میں اسے اس کا احساس ہوا، تو اس کا کیا کفارہ ہے؟ (ایک سائلہ)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جھوٹی قسم کا حکم:

◈ سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ جھوٹی قسم کھانا حرام ہے۔
◈ اس کی حرمت صحیح بخاری (2416، 2417) اور صحیح مسلم (138) سمیت دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
◈ اسی طرح غلط یا گناہ والے کام پر قسم کھانا بھی ناجائز ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد:

"مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلَا يَعْصِهِ”
"جس شخص نے اللہ کی اطاعت کرنے کی نذر مانی ہو تو وہ اللہ کی اطاعت کرے، اور جس نے اللہ کی نافرمانی کی نذر مانی ہو تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے۔”
(موطا امام مالک بتحقیقی روایۃ ابن القاسم ص 281، حدیث 188، صحیح بخاری 6696)

جھوٹی اور نافرمانی والی قسم کا کفارہ:

اس معاملے میں علماء کے دو اقوال ہیں:
کفارہ نہیں ہے
کفارہ ہے
ہماری تحقیق کے مطابق دوسرا قول راجح (زیادہ مضبوط) ہے۔

دلیلِ شرعی:

"عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ»”

"نافرمانی میں کوئی نذر نہیں، اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے”
(سنن نسائی، کتاب الایمان والنذر وکفارۃ النذر، 7/27، حدیث 3869، سندہ صحیح)

امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کا تبویب:

انہوں نے اس حدیث پر ایک باب قائم کیا:

"باب من رأى عليه كفارة إذا كان في معصية”
(جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کفارہ ہے، اگر (قسم) نافرمانی میں ہو)
(قبل حدیث 3290)

عمل صحابہ کی مثال:

◈ ایک عورت نے آکر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ:

"میں نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔”

◈ انہوں نے فرمایا:

"اپنے بیٹے کو ذبح نہ کرنا اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو۔”
(موطا امام مالک، روایۃ یحییٰ، 2/476، حدیث 1048، سندہ صحیح، الاتحاف الباسم ص 281)

جھوٹی قسم پر کفارہ کی تائید امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے:

امام ابو عبد اللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"جس شخص نے جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی (مثلاً) کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہوا تھا حالانکہ ایسا نہیں ہوا، یا کہا: ایسا نہیں ہوا حالانکہ ہوا تھا، وہ کفارہ دے گا۔
وہ گناہگار ہے اور باطل بات پر اللہ کی قسم کھا کر برا کام کیا۔
اگر کہا جائے کہ باطل کے ارادے پر جھوٹی قسم کا کفارہ دینے کی دلیل کیا ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
(فليأت الذي هو خير وليكفر عن يمينه)
"پس بہتر عمل کرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے”
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جھوٹی قسم کا کفارہ لازم ہے۔”
(کتاب الام، جلد 7، صفحہ 61، السنن الکبری للبیہقی، جلد 10، صفحہ 36)

متعلقہ احادیث:

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ حدیث صحیح بخاری (6623) اور صحیح مسلم (1649، 1652) میں بھی مختلف الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔

خلاصۂ جواب:

◈ جھوٹی یا گناہ والی قسم کھانا حرام ہے۔
◈ ایسی قسم کو توڑنا ضروری ہے۔
◈ اس کا کفارہ ادا کرنا لازم ہے، جو قرآن مجید میں مذکور ہے:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ، أَوْ كِسْوَتُهُمْ، أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ…
(سورۃ المائدہ: آیت 89)

یعنی کفارہ:
◈ 10 مساکین کو کھانا کھلانا،
◈ یا ان کو کپڑے پہنانا،
◈ یا ایک غلام آزاد کرنا۔
اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو:
تین روزے رکھنا واجب ہوگا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے