جھوٹی قسم وہ ہے جس کا جھوٹ قسم اٹھانے والے کے علم میں ہو اور لغو (بے مقصد ) قسموں پر کوئی مواخذہ نہیں
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدتُّمْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ [النحل: 94]
”اور تم اپنی قسموں کو آپس کی دغا بازی کا بہانہ نہ بناؤ ، پھر تو تمہارے قدم اپنی مضبوطی کے بعد ڈگمگا جائیں گے اور تمہیں سخت سزا برداشت کرنا پڑے گی کیونکہ تم نے اللہ کی راہ سے روک دیا اور تمہیں بڑا سخت عذاب ہو گا ۔“
➋ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، (ناحق) کسی جان کو قتل کرنا ، واليمين الغموس ”اور جھوٹی قسم ۔“
[بخاري: 6675 ، كتاب الأيمان والنذور: باب اليمين الغموس]
➌ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ
وما اليمين الغموس؟
”اور جھوٹی قسم سے کیا مراد ہے؟“
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:
الذى يقتـطـع بـهــا مـال امرئ مسلم هو فيها كاذب
”جس کے ذریعے کسی مسلمان کا مال اُڑایا جائے حالانکہ وہ اس میں جھوٹا ہو ۔“
[بخارى: 6920 ، كتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم: باب إثم من أشرك بالله وعقوبته فى الدنيا والآخرة]
➍ اکثر فقہا کی یہ رائے ہے کہ یمین غموس وہ ہے جس کا بطلان قسم اٹھانے والے کے علم میں ہو ۔
[سبل السلام: 1888/4 ، مؤطا: 477/2 ، الروضة الندية: 362/2 ، فقه السنة: 81/3]
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ [المائدة: 89]
”اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مؤاخذہ نہیں فرماتا لیکن اس پر مؤاخذہ فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو (قصدا) مضبوط کر دو ۔“
➋ حضرت عائشه رضی اللہ عنہا مذکورہ آیت کا مصداق ایسے شخص کو ٹھہراتی ہیں جو اس طرح بار بار قسمیں کھائے۔
لا والله بلي و الله
”نہیں اللہ کی قسم ، ہاں اللہ کی قسم ۔“
[بخاري: 6663 ، كتاب الأيمان والنذور: باب لا يؤ اخذكم الله باللغه فى أيمانكم]
واضح رہے کہ قسم کی تین اقسام ہیں:
① لغو
② غموس
③ معقده
لغو قسم وہ ہے جو انسان بات بات میں عادتاََ بغیر ارادے اور نیت کے کھاتا رہتا ہے اس پر کوئی مواخذہ نہیں ۔
غموس وہ جھوٹی قسم ہے جو انسان دھوکہ اور فریب دینے کے لیے کھائے۔ یہ کبیرہ گناہ ہے لیکن اس پر کوئی کفارہ نہیں ۔
معقدہ وہ قسم ہے جو انسان اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادہ اورنیتہ کھائے۔ ایسی قسم اگر توڑے گا تو اس کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا ۔
[تفسير أحسن البيان: ص/325]
(امام مالکؒ ، احناف) کسی چیز کو سچا گمان کرتے ہوئے اس پر قسم اٹھانا لغو قسم ہے ۔
[فقه السنة: 80/3 ، بدائع الصنائع: 3/3 – 4]
(شافعیؒ) ایسی قسم لغو یمین ہے جو غیر ارادی طور پر اٹھائی جائے ۔
[المهذب: 128/2]
(جمہور) لغو یمین یہ ہے کہ کوئی شخص گذشتہ واقعہ کی خبر دیتے ہوئے کہے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسے نہیں کیا ۔
[بدائع الصنائع: 17/3]
(راجح) لغو یمین وہ ہے جو غیر ارادی طور پر اٹھائی جائے کیونکہ قرآن میں لغو یمین کو ارادی قسم کے مقابلے میں بیان کیا گیا ہے ۔
[فتح البارى: 556/11 ، سبل السلام: 1887/4 ، فقه السنة: 80/3 ، الروضة الندية: 363/2]
بعض حضرات معقدہ قسم کی پانچ قسمیں کرتے ہیں:
➊ سچی قسم ، اور یہ جائز ہے ۔
➋ جھوٹی قسم ، جس کا جھوٹ واضح ہو اور وہ حرام ہے ۔
➌ جس کی سچائی کا گمان ہو ، یہ جائز نہیں ۔
➍ جس کے جھوٹ کا گمان ہو ، یہ حرام ہے ۔
➎ جس کے سچ اور جھوٹ میں شک ہو ، یہ بھی حرام ہے ۔
اور جو تم قلبی ارادے کے بغیر ہو بلکہ عادتاََ زبان سے نکل جائے تو اسی کو لغو یمین کہتے ہیں ۔
[سبل السلام: 1887/4]