جھاڑ پھونک نہ کرنے والوں کی فضیلت صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ ابو حذیفہ محمد جاوید سلفی کی کتاب آئینہ توحید و سنت بجواب شرک کیا ہے مع بدعت کی حقیقت سے ماخوذ ہے۔

جھاڑ پھونک نہ کرنے والوں کی فضیلت :۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر سابقہ امتیں پیش کی گئیں چنانچہ میں نے ایک نبی علیہ السلام کو دیکھا کہ اس کے ساتھ محض چند افراد ہیں ایک نبی علیہ السلام کے ساتھ صرف ایک دو آدمی ہیں اور ایک نبی علیہ السلام کے ساتھ کوئی بھی نہیں پھر اچانک مجھے ایک بہت بڑی جماعت دکھائی گئی۔ میں نے گمان کیا کہ شاید یہی میری امت ہے تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا اس افق کی جانب دیکھیں میں نے دیکھا تو ایک اور بڑی جماعت نظر آئی مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے اور ان میں ستر ہزار افراد ایسے ہیں جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اپنے گھر چلے گئے تو لوگ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) ان ستر ہزار افراد کے متعلق غور و خوض کرنے لگے جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا شاید وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوں گے۔ کچھ لوگوں نے کہا نہیں ان سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی ولادت اسلام کی حالت میں ہوئی انہوں نے بھی شرک نہیں کیا کچھ لوگوں نے کچھ اور آراء ظاہر کیں۔ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کس چیز کے بارے میں غور کر رہے ہو؟ تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ وہ ستر ہزار افراد کون ہوں گے جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
هم الذين لا يرقون ولا يسترقون ولا يتطيرون وعلى ربهم يتوكلون(بخاری)
یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ دم کرتے تھے نہ جھاڑ پھونک کرواتے تھے، اور نہ وہ بدشگونی لیتے تھے اور وہ صرف اپنے رب تعالیٰ ہی پر توکل کرتے تھے۔ یہ سن کر حضرت عکاشہ بن محض رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کر دے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم انہی میں سے ہو پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا میرے لیے بھی دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کر دے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عکاشہ رضی اللہ عنہ تم سے سبقت لے گئے ہیں۔ (صحیح بخاری شریف : حدیث 3410 – 5705 5752 ، صحیح مسلم حدیث : 220)
قارئین محترم خالص اللہ پر توکل رکھنا اور اسی عقیدے کے تحت جائز علاج کرانا بھی توکل کے منافی نہیں ہے پھر جو لوگ خالص توکل پر قائم رہ کر کوئی جائز علاج ہی نہ کرائیں وہ یقیناً اس فضیلت کے مستحق ہوں گے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان اپنے خوش نصیب بندوں میں شامل فرمائے اور شرک سے محفوظ فرمائے۔ آمين
بدشگونی یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص کوئی کام کرنے کا پختہ عزم کر چکا ہو پھر کوئی چیز دیکھ کر یا کوئی بات سن کر وہ کام نہ کرے جس طرح جاہلیت کے زمانے میں کوئی شخص جب کسی کام کے لیے گھر سے روانہ ہونا چاہتا تو ایک پرندے کو اڑا کر دیکھتا اگر وہ دائیں طرف اڑتا تو روانہ ہو جاتا اور اگر بائیں طرف اڑتا تو اس سے بدشگونی لے کر واپس ہو جاتا یعنی ان کا خیال یہ ہوتا کہ اب سفر کرنا درست نہیں نقصان کا باعث ہے جس طرح لوگ کہتے ہیں کالی بلی آگے سے گزر جائے سفر کرنا درست نہیں یا یہ کہتے ہیں کہ صبح سویرے ایسا آدمی منہ لگا کہ سارا دن ہی خراب ہو گیا یہ بدشگونی ہے۔
شریعت نے اس طرح کی بدشگونی سے منع کیا ہے بلکہ بدشگونی لینے کو شرک قرار دیا ہے۔ کیونکہ جو شخص اس طرح کرتا ہے وہ گویا کہ اللہ پر توکل نہیں کرتا بلکہ وہ اس چیز پر توکل کرتا ہے جس کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من ردته الطيرة عن حاجته فقد اشرك(صحيح الجامع للالباني رحمہ اللہ : 6264)
جس شخص کو بدشگونی کسی کام سے روک دے تو اس نے شرک کیا۔
بعض لوگ کسی شخص سے بدشگونی لیتے ہیں مثلا صبح سویرے اپنے کاروبار کے لیے کہیں جاتے ہوئے اگر راستے میں کوئی مسکین یا مانگنے والا مل جائے تو کہتے ہیں یہ سویرے سویرے ہی ٹکر گیا آج تو خیر نہیں ہے یا گھر سے کوئی نقصان ہو جائے تو کہتے ہیں یہ اس منحوس عورت کی وجہ سے ہوا۔ اس طرح کسی شخص سے بدشگونی لینا درست نہیں ہے یہ بیماری مسلمانوں میں عام پائی جاتی ہے خاص کر انڈیا پاکستان کے مسلمانوں میں، اس سے بچنا بہت ضروری ہے کوئی کہتے ہیں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی فلاں شخص کا ستارہ ٹھیک نہیں ہے فلاں کا ستارہ آپس میں نہیں ملتا اس سے بھی شریعت اسلامیہ نے سختی سے منع کیا ہے چنانچہ حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں رات کی بارش کے بعد صبح کی نماز پڑھائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
هل تدرون ماذا قال ربكم(صحیح بخاری حدیث : 846 ، مسلم : 71)
کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج رات تمہارے رب نے کیا کہا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ علم ہے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آج میرے بندوں میں سے کسی نے حالت ایمان میں صبح کی ہے اور کسی نے حالت کفر میں پس جس نے یہ کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش نازل ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان رکھنے والا اور ستاروں کی تاثیر سے انکار کرنے والا ہے اور جس نے یہ کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نازل ہوئی تو اس نے مجھ سے کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لے آیا۔
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ ہر معاملے میں مکمل طور پر صرف رب العالمین کی ذات پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے تعویذوں کے بارے میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فرامین کی روشنی میں وضاحت کی جاچکی ہے کہ ان کا لینا درست نہیں لیکن کچھ علماء قرآنی آیات کے تعویذ اور ماثور دعاؤں سے مرتب تعویذ کو جائز سمجھتے ہیں ۔ لیکن اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد اہل علم کا خیال ہے کہ قرآنی تعویذ بھی لٹکانا درست نہیں۔ ان علماء میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اور ابن حکیم رحمہ اللہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ وغیرہ دور حاضر کے محقق علماء میں محدث عصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔(تعویذ اور عقیده توحید صفحه : 98)
ان علماء کے اقوال مندرجہ ذیل کتب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الطب 374/7 اور اس کے بعد کے صفحات سنن بیہقی 216/9 اور مستدرک حاکم 216/5 اور تیسرا لعزیز الحمید ص 174،168 سلسلہ احادیث صحیحہ 1/ 585 القول الجلي ص 38 معارج القبول 382/1 اور فتاوی ابن باز 820/1)
حقیقت امر یہی ہے کہ فریق اول کا قول کسی قوی حجت پر مبنی نہیں ہے رہا فریق ثانی کا موقف وہ یہ ہے کہ تعویذوں کے بارے میں وارد شدہ ممانعت کا حکم عام ہے جیسا کہ حرمت کے دلائل اس بحث کے شروع میں گزر چکے ہیں اور شریعت میں اس عموم کی کوئی تخصیص وارد نہیں ہوئی لہذا یہ حکم اپنے عموم پر باقی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ عمل مشروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیان فرمایا ہوتا جیسا کہ دعا پڑھ کر پھونکنے دم کرنے کا بیان فرمایا اور شرکیہ کلام نہ ہونے کی صورت میں اس کی اجازت دی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم لوگ مجھے اپنے جھاڑ پھونک کے کلمات سناؤ اگر اس میں شرک نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔(صحیح مسلم مع شرح نووی کتاب السلام باب لاباس 187/14)
لیکن اس طرح کی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعویذ کے بارے میں ارشاد نہیں فرمائی۔
لہذا ہر طرح کے تعویذ سے پر ہیز ہی کیا جائے اور اللہ پر مکمل بھروسہ کیا جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں کبھی کسی کو تعویذ لکھ کر گلے میں لٹکانے کا حکم نہیں دیا اور قرآن مجید کا تعویذ لٹکانا بھی بے حرمتی کا باعث بنتا ہے۔ مثلا بیت الخلاء وغیرہ میں اس تعویذ کے ساتھ داخل ہونا قرآن کی توہین ہے یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن میں ماننے والوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (سورہ الاسراء آیت : 82)
اس آیت مبارکہ میں طریقہ علاج نہیں بتایا گیا بلکہ قرآن سے علاج کرنے کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے اور وہ ہے اس کی تلاوت کرنا اسکے احکام پر عمل کرنا جب انسان قرآن پر عمل ہی نہ کرے قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دے صرف گلے میں لٹکائے سمجھنے کی بھی کوشش نہ کرے۔ جس طرح قرآن کو اللہ نے شفا قرار دیا شہد کو بھی شفا فرمایا گیا۔ اگر کوئی شخص شہد کی بوتل بھر کر گلے میں لٹکالے تو کیا اسے شفا مل جائے گی؟ جب تک اسے استعمال نہ کرے اسی طرح قرآنی تعلیمات پر عمل کیے بغیر انسان کیسے شفاء حاصل کرے گا۔ انسان گلے میں تعویذ لٹکاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تو اپنی قدرت کے اعتبار سے اس کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تعویذ دھاگے کی بجائے اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کر لے تو بہتر ہے۔ یہی بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے اللہ تعالیٰ سب مسلمان کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمين
عاقل کو تو کافی ہے بس ایک حرف حکایت
نادان کو کافی ہے نہ دفتر نہ رسالہ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے