سوال:
جو قربانی کی مشروعیت کا منکر ہو، اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اہل سنت والجماعت کے ہاں قربانی مشروع ہے۔ قربانی میں مخصوص دن کو مخصوص عمر کے جانوروں کا خون بہایا جاتا ہے۔ یہ مسلمانوں کا متوارث عمل ہے اور اس پر امت کا تعامل رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قربانی کی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین رحمہم اللہ، تبع تابعین رحمہم اللہ اور ائمہ دین رحمہم اللہ قربانی کرتے رہے۔ نیز قربانی کے استحباب و مشروعیت پر کتاب و سنت اور امت کا اجماع دلیل ہے۔ یہ اسلام کا شعار اور اللہ کریم کے شکر کا نرالا انداز بھی ہے۔ قربانی اللہ کا حق ہے اور اس کے قرب کا بہترین ذریعہ ہے۔
جو لوگ قربانی کی اہانت کرتے ہوئے اس کو ترک کر دیتے ہیں، وہ گناہ گار ہیں۔
❀ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ
(سورۃ الحج: 34)
ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کی ہے، تا کہ وہ ان کو عطا کردہ چوپایوں پر اللہ کا نام ذکر کریں۔
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ضحى النبي صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين، فرأيته واضعا قدمه على صفاحھما، يسمي ويكبر، فذبحهما بيده.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سفید و سیاہ رنگ کے مینڈھے قربان کیے، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک ان کی گردنوں پر رکھا، اللہ کا نام لیا، تکبیر کہی اور ان کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دیا۔
(صحیح البخاری: 5558، صحیح مسلم: 1966)
❀ علامه ابن قدامہ رحمہ اللہ (682ھ) لکھتے ہیں:
أجمع المسلمون على مشروعية الأضحية.
مسلمانوں کا قربانی کی مشروعیت پر اجماع ہے۔
(الشرح الكبير: 3/530)
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) لکھتے ہیں:
الذي يضحى به بإجماع من المسلمين الأزواج الثمانية وھي الضأن والمعز والإبل والبقر.
مسلمانوں کا اجماع ہے کہ چار قسم کے جوڑوں کی قربانی ہوگی، یعنی بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے۔
(التمهيد لما في المؤطأ من المعاني والأسانيد: 23/188)
❀ امام ابن منذر رحمہ اللہ (319ھ) لکھتے ہیں:
أجمعوا على أن الصحايا لا يجوز ذبحھا قبل طلوع الفجر من يوم النحر.
اجماع ہے کہ دس ذوالحجہ کے طلوع فجر سے پہلے قربانیاں ذبح کرنا جائز نہیں۔
(الإجماع: ص 78)
❀ علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ (1252ھ) فرماتے ہیں:
إذا أنكر أصل مشروعيتھ المجمع عليھا بين الأمة فإنه يكفر.
جس عمل کی مشروعیت پر امت کا اجماع ہو، اس کا سرے سے انکار کر دے تو وہ کافر ہو جائے گا۔
(فتاویٰ شامی: 6/314)
نقل کرتے ہیں:
لو أنكر أصل الوتر وأصل الأضحية كفر.
اگر کوئی شخص وتر اور قربانی کی مشروعیت کا انکار کرے، وہ کافر ہو جائے گا۔
(فتاویٰ شامی: 6/314)