مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ
وہ اسے چھوڑ دے، اس کے لیے اسے لینا جائز نہیں کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا جوتا، اس جوتے کے مالک کے علاوہ کسی دوسرے شخص نے اٹھایا ہو اور وہ یہ جوتا لے کر وہ چیز لینے کا مرتکب ہو جائے جو اس کی نہیں، البتہ بعض علما کا کہنا ہے کہ اگر دونوں جوتے ایک دوسرے کے ساتھ ملتے جلتے ہوں، یعنی اس آدمی کا جوتا اور جو جوتا وہاں رہ گیا ہے، تو ایسی حالت میں اسے لینے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آدمی غلطی سے، اور جس کا گم ہوا ہے، اسے اپنا سمجھتے ہوئے لے گیا ہے۔ اس قول میں کوئی وجہ شک نہیں لیکن پرہیز گاری کا تقاضا ہے کہ ایسا نہ کرے، بلکہ اسے لقطہ سمجھے، اور چاہے تو اسے لے کر اعلان کروائے یا چاہے تو چھوڑ دے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 12/245]