اگر جنگی دشمن پکڑے جانے سے پہلے مسلمان ہو جائے تو وہ اپنا مال بچا لے گا
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے حتی کہ وہ کلمہ پڑھ لیں ، نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں جب وہ ایسا کریں تو :
عصموا مني دماء هم وأموالهم
”وہ مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال بچا لیں گے ۔“
[بخاري: 25 ، كتاب الإيمان: باب فإن تابوا وأقامو الصلاة ، مسلم: 22]
➋ امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے کہ :
إذا أسلم قوم فى دار الحرب ولهم مال وأرضون فهى لهم
”جب كوئى قوم دار الحرب میں مسلمان ہو جائے اور ان کے پاس مال اور زمینیں ہوں تو وہ انہی کی ملکیت میں رہیں گی ۔“
[بخاري: قبل الحديث: 3058 ، كتاب الجهاد والسير]
➌ اس ضمن میں حضرت صخر بن عیلۃ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ضعیف ہے ۔
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 670 ، كتاب الخراج: باب فى إقطاع الأرضين ، ابو داود: 3067 ، احمد: 310/4 ، حافظ ابن حجرؒ فرماتے هيں كه اس كے رجال كي توثيق كي گئي هے ۔ بلوغ المرام: 284]
➍ جس روایت میں ہے کہ :
من أسلم على شئ فهو له
”جو شخص کسی چیز پر (یعنی جو اس کے پاس ہو ) مسلمان ہو تو وہ اسی کی ہے ۔“
[أبو يعلى: 5847 ، بيهقي: 113/9 ، الكامل لابن عدي: 535/8 ، امام ابن عديؒ نے ”یٰسین زيات“ كي وجه سے اسے ضعيف كها هے۔ امام بيهقيؒ فرماتے هيں كه يه ابن ابي مليكه اور عروه سے مرسل منقول هے۔]
➎ جس روایت میں ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کا محاصرہ کیا تو ثعلبہ اور اُسید بن سعید مسلمان ہو گئے ۔ ان کے اسلام نے ان کے اموال اور چھوٹے بچوں کو محفوظ کر لیا ۔“ وہ مرسل ہے ۔
[نصب الراية: 410/3]
(جمہور ) حربی اگر دلی خوشی سے مسلمان ہو جائے تو اس کا تمام مال اس کی ملکیت میں ہی رہے گا ۔ قطع نظر اس سے کہ وہ دار الاسلام میں مسلمان ہوا ہو یا دار الکفر میں ۔
(ابو یوسفؒ ) اسی کے قائل ہیں ۔
(شافعیہ ، حنابلہ ) اسلام مال کو محفوظ کر لیتا ہے خواہ وہ منقول ہو یا غیر منقول ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 467/6 ، آثار الحرب: ص / 613 ، نيل الأوطار: 79/5]