جنوں کے وجود کے متعلق شیخ الجزائری کی رائے
تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

227۔ جنوں کے وجود کے متعلق شیخ الجزائری کی کیا رائے ہے ؟
جواب :
فضيلة اشیخ ابوبکر الجزائری نے جنوں کے متعلق فرمایا :
”بلاشبہ جنوں کا انسانوں کو تکلیف دینا ثابت ہے، اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ وہ دلیل سمعی اور دلیل حسی دونوں کے ساتھ ثابت ہے۔ عقل اس کو حال نہیں کہتی، بلکہ اس کی اجازت دیتی اور اس کے وجود کو ثابت کرتی ہے۔ اگر وہ فرشتے حفاظت نہ کرتے جن کی اللہ نے ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ انسان کی حفاظت کریں۔ تو جن و شیاطین سے کوئی بھی نجات نہ پا سکتا تھا اور اس کی وجہ انسان کا ان کو نہ دیکھ پانا اور ان کا بڑی تیزی سے پھرنے کی قدرت رکھنا ہے، اس لیے کہ ان کے اجسام اتنے باریک ہیں کہ ہماری حس وشعور ان کا ادراک نہیں کر سکتے اور اس بات میں بھی شک نہیں کہ بعض جن بعض انسانوں کو تکلیف بھی دیتے ہیں، اس کی وجہ انسان کا کسی طریقے سے ان کو تکلیف دینا ہوتا ہے، مثلا یہ ان پر گرم پانی گرا دیتا ہے، یا ان پر پیشاپ کر دیتا ہے، یا لاشعوری میں ان کے کچھ گھروں کو روند ڈالتا ہے۔ پھر وہ انتقامی طور پر اسے تکلیف دیتے ہیں۔ “ [ماخوذ از كتاب وقاية الإنسان من الجن والإنسان ص: 54 للشيخ وحيد عبد السلام بالي۔ ]

228۔ الشیخ ابوبکر الجزائری کا جن کے ساتھ قصہ ہے ؟
جواب :
فضیلتہ الشیخ ابوبکر الجزائری جن کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
”یہاں ہم اپنے گھر میں ہونے والے ایک وقوعہ کا ذکر کرتے ہیں، جس کے آلام و آثار کی تکلیف کو ہم نے برداشت کیا ہے۔ ہوا یوں کہ مجھ سے بڑی میری سعدیہ نامی بہن تھی۔ ہم ان دنوں چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے۔ ہم گھر کے نچلے حصے سے بالائی حصے کی طرف ایک رسی کے واسطے سے چڑھ جاتے، جسے ہم نے کھجور کی ایک شاخ کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ کھجور کی شاخ کو بھی ہم چھت سے رسی کے ذریے کھینچ لیتے تھے۔ ایک دن یوں ہوا کہ میری بہن نے رسی کو کھینچا، لیکن وہ شاخ کو اپنی طرف کھینچنے میں ناکام رہی اور کھینچتے کھینچتے خود زمین پر کسی جن کے اوپر آ گری، گویا اس نے جن پر گر کر اسے شدید اذیت دی، پھر اس جن نے اس سے انتقام لیا۔ وہ ہر ہفتے میں دو یا تین یا زائد مرتبہ اس کے پاس سوتے وقت آتا تھا، پھر وہ اس کا گلہ گھوٹتا تھا۔ وہ مسکین بہن ہاتھ پاؤں مارتی اور ذبح کی ہوئی بکری کی طرح مضطرب ہو جاتی تھی۔ وہ اسے نیم مردہ ہونے کی حالت میں چھوڑتا تھا۔ ایک دن وہ اس کی زبان پر یہ صراحت کرتے ہوئے بولا کہ وہ اس کے ساتھ یہ معاملہ اس لیے کر رہا ہے کہ اس نے اسے تکلیف دی ہے، پھر وہ مسلسل اس کے پاس آتا رہا اور اسے عذاب دیتا رہا حتی کہ ایک دن آیا اور اسے قتل کر دیا۔ اس کا یہ معاملہ تقریبا دس سال رہا، پھر وہ اپنی عادت کے مطابق آیا اور اس کی جان نہ چھوڑی، حتی کہ اس کو موت آ گئی۔ اللہ اس پر رحم کرے اور اسے معاف کرے۔“ [آمين ]
یہ وہ حادثہ تھا جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ دیکھنے والا سنے والے کی طرح نہیں ہوتا۔ یعنی دیکھنے والا ہر قسم کے شک سے بری ہو جاتا ہے۔ [حواله سابقه]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: