یہ مضمون جنت کے گھروں، قصور اور محلات کے موضوع پر مرتب کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان اور اپنے فرمانبردار بندوں کے لیے جنت کو تیار فرمایا ہے، جہاں ایسی نعمتیں ہوں گی جو انسانی تصور سے بھی ماورا ہیں۔ اس مضمون میں ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں جنت کی دائمی زندگی، اس کی نعمتوں اور خصوصاً جنت کے گھروں اور محلات کا تذکرہ کریں گے، پھر یہ واضح کریں گے کہ کن لوگوں کے لیے یہ عظیم الشان گھر تیار کیے گئے ہیں اور کن اعمال کے سبب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جنت میں گھر عطا فرماتا ہے۔
جنت کی نعمتیں انسانی تصور سے بالا تر
محترم حضرات!
اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے لیے جنت کو تیار فرمایا ہے، جس میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
(( قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : أَعْدَدْتُّ لِعِبَادِی الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ ، وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ))
صحیح البخاری: 3244، صحیح مسلم: 2823
ترجمہ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا تصور آیا۔”
جنت کی دائمی زندگی
میرے بھائیو اور بہنو!
جنت میں زندگی ہمیشہ کے لیے ہوگی، وہاں کبھی موت نہیں آئے گی۔ ہمیشہ صحت اور تندرستی ہوگی، بیماری کا کوئی نام و نشان نہیں ہوگا۔ ہمیشہ جوانی ہوگی، بڑھاپا کبھی نہیں آئے گا۔ ہمیشہ خوشحالی ہوگی، کبھی تنگی اور بدحالی نہیں آئے گی۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( إِذَا دَخَلَ أَہْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ یُنَادِیْ مُنَادٍ ))
صحیح مسلم: 2837
ترجمہ
"جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا:
((إِنَّ لَکُمْ أَنْ تَحْیَوْا فَلَا تَمُوْتُوْا أَبَدًا))
’’تم ہمیشہ زندہ رہو گے، کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘
((وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَصِحُّوْا فَلَا تَسْقَمُوْا أَبَدًا))
’’تم ہمیشہ تندرست رہو گے، کبھی بیمار نہیں ہو گے۔‘‘
((وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَشِبُّوْا فَلَا تَہْرَمُوْا أَبَدًا))
’’تم ہمیشہ جوان رہو گے، کبھی بوڑھے نہیں ہو گے۔‘‘
((وَإِنَّ لَکُمْ أَنْ تَنْعَمُوْا فَلَا تَبْأَسُوْا أَبَدًا))
’’تم ہمیشہ خوشحال رہو گے، کبھی بدحال نہیں ہو گے۔”
جنت کے گھروں اور محلات کا ذکر
جنت کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت اس کے عالی شان گھر، قصور اور محلات ہیں۔ ہر مومن مرد اور عورت کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ اسے جنت میں ایک گھر یا محل نصیب ہو جس میں وہ ہمیشہ کی زندگی گزارے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِہَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّۃٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ وَعْدَ اللّٰہِ لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ الْمِیْعَادَ ﴾
الزمر: 20
ترجمہ
"لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے، ان کے لیے بالا خانے ہیں جن کے اوپر بھی بنے بنائے بالا خانے ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، اور اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔”
جنت کے محلات کی حقیقت
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ أَوْ أَتَیْتُ الْجَنَّۃَ ، فَاَبْصَرْتُ قَصْرًا ))
صحیح البخاری: 5226، صحیح مسلم: 2394
ترجمہ
"میں جنت میں داخل ہوا (یا گیا) تو میں نے سونے کا ایک محل دیکھا۔”
یہ دلائل واضح کرتے ہیں کہ جنت کے قصور اور محلات حقیقی ہیں، اور ان میں رہائش پانا ہی اصل کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ لَا یَسْتَوِیٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ۚ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ ﴾
الحشر: 20
ترجمہ
"جہنم والے اور جنت والے برابر نہیں ہو سکتے، جنت والے ہی اصل کامیاب ہیں۔”
جنت ہی اصل کامیابی ہے
محترم حضرات!
جس شخص کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرما دے، وہی حقیقی معنی میں کامیاب ہے۔ اسی لیے اہلِ ایمان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ انہیں جنت کے گھروں اور محلات میں رہائش نصیب ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ﴾
آل عمران: 185
ترجمہ
"پس جس شخص کو جہنم سے دور کر دیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا، وہی کامیاب ہو گیا۔”
اور فرعون کی بیوی نے بھی یہی عظیم دعا کی:
﴿ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾
التحریم: 11
ترجمہ
"اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے، اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا لے، اور مجھے ظالم قوم سے نجات دے دے۔”
اب سوال یہ ہے کہ جنت کے یہ محلات اور گھر کن لوگوں کے لیے ہیں؟ اور وہ کون سے اعمال ہیں جن کے سبب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے؟ آئیے ان خوش نصیب لوگوں اور اعمال کا ذکر کرتے ہیں۔
➊ اللہ پر ایمان اور رسولوں کی تصدیق
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ أَہْلَ الْجَنَّۃِ یَتَرَاؤَونَ أَہْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوقِہِمْ کَمَا یَتَرَاؤَونَ الْکَوْکَبَ الدُّرِّیَّ الْغَابِرَ فِی الْأُفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ ، لِتَفَاضُلِ مَا بَیْنَہُمْ))
صحیح البخاری: 3256، صحیح مسلم: 2831
ترجمہ
"بے شک اہلِ جنت اپنے اوپر والے بالا خانوں والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم مشرق یا مغرب کے افق میں چمکتے اور غروب ہوتے ہوئے روشن ستارے کو دیکھتے ہو، یہ اس لیے کہ ان کے درجات میں فرق ہوگا۔”
صحابہؓ نے عرض کیا:
(( یَا رَسُولَ اللّٰہِ! تِلْکَ مَنَازِلُ الْأَنْبِیَاءِ لَا یَبْلُغُہَا غَیْرُہُمْ ))
ترجمہ
"یا رسول اللہ! یہ تو انبیاء کے مقامات ہوں گے، وہاں کوئی اور کیسے پہنچ سکتا ہے؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
(( بَلٰی وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ، رِجَالٌ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَصَدَّقُوْا الْمُرْسَلِیْنَ ))
صحیح البخاری: 3256، صحیح مسلم: 2831
ترجمہ
"کیوں نہیں! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ ان لوگوں کے لیے بھی ہوں گے جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی۔”
ایمان باللہ کا مفہوم
اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ:
❀ اللہ تعالیٰ ہی کو خالق و مالک مانا جائے۔
❀ اسی کو رازق، مدبر، نفع و نقصان کا مالک سمجھا جائے۔
❀ اسی کو حاجت روا اور مشکل کشا مانا جائے۔
❀ اسی کو معبودِ برحق تسلیم کر کے عبادت صرف اسی کے لیے کی جائے۔
❀ توکل، امید، خوف، رکوع و سجود—سب میں اللہ کو وحدہ لا شریک مانا جائے۔
تصدیقِ رسل کا مفہوم
رسولوں کی تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ:
❀ تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت پر ایمان لایا جائے۔
❀ انہیں اللہ کے برگزیدہ بندے مانا جائے۔
❀ یقین رکھا جائے کہ اللہ نے انہیں توحید اور دینِ اسلام کی دعوت دینے کے لیے مبعوث فرمایا۔
❀ وحی اور شریعت کے احکام انہی کے ذریعے بندوں تک پہنچے۔
➋ ایمان، اسلام، ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ
یعنی جو شخص:
❀ ایمان باللہ پر قائم ہو،
❀ فرائضِ اسلام پر عمل کرے،
❀ دین کی خاطر ہجرت کی ضرورت پیش آئے تو ہجرت کرے،
❀ اور جہاد فی سبیل اللہ کا موقع آئے تو پیچھے نہ رہے—
اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
(( أَنَا زَعِیْمٌ… لِمَنْ آمَنَ بِیْ وَأَسْلَمَ وَہَاجَرَ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ، وَبِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الْجَنَّۃِ ))
ترجمہ
"میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کے لیے جو مجھ پر ایمان لایا، اسلام لایا اور ہجرت کی: جنت کے کنارے میں ایک گھر اور جنت کے درمیان میں ایک گھر۔”
اور فرمایا:
(( وَأَنَا زَعِیْمٌ لِمَنْ آمَنَ بِیْ وَأَسْلَمَ وَجَاہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ… ))
سنن النسائی: 3133 (وصححہ الألبانی)
ترجمہ
"اور میں اس شخص کے لیے بھی ضمانت دیتا ہوں جو مجھ پر ایمان لایا، اسلام لایا اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا: جنت کے کنارے میں ایک گھر، جنت کے درمیان میں ایک گھر، اور جنت کے بلند بالا خانوں میں ایک گھر۔”
پھر فرمایا:
(( مَنْ فَعَلَ ذَلِکَ… ))
سنن النسائی: 3133 (وصححہ الألبانی)
ترجمہ
"جس نے یہ اعمال کیے اور پھر خیر کے ہر کام کو طلب کرتا رہا اور شر سے بچتا رہا، اس کی موت وہاں آئے گی جہاں وہ چاہے گا۔”
➌ کھانا کھلانا، نرم گفتگو، روزے اور تہجد
یہ وہ عظیم اعمال ہیں جن کے کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر جنت کے بالا خانے تیار فرمائے ہیں۔
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(( إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ غُرَفًا یُرٰی ظَاہِرُہَا مِنْ بَاطِنِہَا، وَبَاطِنُہَا مِنْ ظَاہِرِہَا ))
’’جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا باہر کا حصہ اندر سے اور اندر کا حصہ باہر سے دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘
پھر فرمایا:
(( أَعَدَّہَا اللّٰہُ تَعَالٰی لِمَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ ))
’’اللہ نے یہ بالا خانے اس شخص کے لیے تیار کیے ہیں جو کھانا کھلاتا ہے۔‘‘
(( وَأَلَانَ الْکَلَامَ ))
’’اور نرم گفتگو کرتا ہے۔‘‘
(( وَتَابَعَ الصِّیَامَ ))
’’اور کثرت سے روزے رکھتا ہے۔‘‘
(( وَصَلّٰی بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ ))
’’اور رات کو اس وقت نماز پڑھتا ہے جب لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔‘‘
رواہ احمد وابن حبان، صحیح الجامع للألبانی: 2123، الترمذی: 1984 (وحسنہ الألبانی)
ترجمہ (مکمل مفہوم)
یہ اعمال—لوگوں کو کھانا کھلانا، نرم لہجہ اختیار کرنا، نفلی روزوں کی پابندی اور تہجد—اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنے محبوب ہیں کہ ان کے بدلے جنت کے شفاف اور بلند بالا محلات عطا کیے جاتے ہیں۔
➍ اولاد کی وفات پر صبر کرنا
اگر اللہ تعالیٰ کسی مومن کے بیٹے یا بیٹی کو دنیا سے اٹھا لے اور وہ بندہ صبر کرے، شکوہ نہ کرے، جزع فزع سے بچے اور
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ
"بے شک ہم اللہ ہی کے ہیں اور یقیناً ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔”
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللّٰہُ لِمَلَائِکَتِہٖ: قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِی؟ ))
’’جب کسی بندے کا بیٹا فوت ہو جاتا ہے تو اللہ فرشتوں سے پوچھتا ہے: کیا تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی؟‘‘
فرشتے کہتے ہیں: جی ہاں۔
پھر فرمایا جاتا ہے:
(( قَبَضْتُمْ ثَمَرَۃَ فُؤَادِہٖ؟ ))
’’کیا تم نے اس کے دل کا ٹکڑا لے لیا؟‘‘
فرشتے کہتے ہیں: جی ہاں۔
پھر فرمایا جاتا ہے:
(( مَاذَا قَالَ عَبْدِی؟ ))
’’میرے بندے نے کیا کہا؟‘‘
وہ کہتے ہیں:
(( حَمِدَکَ وَاسْتَرْجَعَ ))
’’اس نے تیری حمد کی اور پڑھا۔‘‘
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ
"بے شک ہم اللہ ہی کے ہیں اور یقیناً ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔”
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(( اِبْنُوا لِعَبْدِی بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَسَمُّوہُ بَیْتَ الْحَمْدِ ))
جامع الترمذی: 1021 (وحسنہ الألبانی)
ترجمہ
’’میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دو۔‘‘
➎ سننِ مؤکدہ کی پابندی
فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کی سننِ مؤکدہ کی پابندی بھی جنت میں گھر کا سبب ہے۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( مَنْ صَلّٰی فِی یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بُنِیَ لَہُ بَیْتٌ فِی الْجَنَّۃِ ))
جامع الترمذی: 415 (وصححہ الألبانی)
ترجمہ
’’جو شخص دن اور رات میں بارہ رکعتیں (سنن) پڑھے، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے۔‘‘
(تفصیل: ظہر سے پہلے چار، بعد دو، مغرب کے بعد دو، عشاء کے بعد دو، فجر سے پہلے دو)
➏ نمازِ چاشت
نمازِ چاشت (صلاۃ الاوابین) کی بڑی فضیلت ہے۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( مَنْ صَلَّی الضُّحٰی أَرْبَعًا، وَقَبْلَ الْأُولٰی أَرْبَعًا، بُنِیَ لَہُ بَیْتٌ فِی الْجَنَّۃِ ))
السلسلۃ الصحیحۃ: 2349
ترجمہ
’’جو شخص چاشت کی چار رکعتیں اور ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے۔‘‘
➐ اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنانا
مسجد بنانا یا بنوانا عظیم نیکی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا لِلّٰہِ… بَنَی اللّٰہُ لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ ))
سنن ابن ماجہ: 738 (وصححہ الألبانی)
ترجمہ
’’جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنائے، چاہے وہ پرندے کے گھونسلے جتنی ہی ہو، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیتا ہے۔‘‘
➑ مسجد کی توسیع کرنا
اگر کوئی شخص پوری مسجد بنانے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، لیکن اپنی حیثیت کے مطابق مسجد کی توسیع میں حصہ لے، تو یہ عمل بھی جنت میں گھر کا سبب بنتا ہے۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اپنے محاصرے کے دنوں میں اپنے فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے:
(( وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: مَنْ یَّشْتَرِیْ ہٰذِہِ الْبُقْعَۃَ فَیَزِیْدُہَا فِی الْمَسْجِدِ وَلَہٗ بَیْتٌ فِی الْجَنَّۃِ ))
مصنف ابن ابی شیبہ: 7/492، السنۃ لابن ابی عاصم: 1107
ترجمہ
"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو اس جگہ کو خرید کر مسجد میں شامل کر دے، اس کے بدلے اس کے لیے جنت میں ایک گھر ہے۔ چنانچہ میں نے وہ جگہ خرید کر مسجد میں شامل کر دی۔”
➒ صف میں خالی جگہ پُر کرنا
نمازِ باجماعت میں صفوں کو مکمل کرنا نماز کے کمال میں شامل ہے۔ جو شخص صف میں موجود خلا کو پُر کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے بلند اجر عطا فرماتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
(( مَنْ سَدَّ فُرْجَۃً رَفَعَہُ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً وَبَنَی لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ ))
رواہ الطبرانی، صحیح الترغیب للألبانی: 505
ترجمہ
"جو شخص صف کی خالی جگہ پُر کرے، اللہ اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے اور اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔”
➓ دس مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھنا
سورۃ الاخلاص کی عظیم فضیلت احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے۔ اسے رسول اللہ ﷺ نے قرآن کے ایک تہائی کے برابر قرار دیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(( مَنْ قَرَأَ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ حَتّٰی یَخْتِمَہَا عَشْرَ مَرَّاتٍ بَنَی اللّٰہُ لَہٗ قَصْرًا فِی الْجَنَّۃِ ))
السلسلۃ الصحیحۃ: 589
ترجمہ
"جو شخص سورۃ الاخلاص دس مرتبہ مکمل پڑھے، اللہ اس کے لیے جنت میں ایک محل بنا دیتا ہے۔”
یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر تو میں کثرت سے پڑھوں گا۔
آپ ﷺ نے فرمایا: (اَللّٰہُ أَکْثَرُ وَأَطْیَبُ)
"اللہ اس سے بھی زیادہ دینے والا اور بہت بہتر ہے۔”
⓫ جھگڑا ترک کرنا
اسلام بھائی چارے اور باہمی محبت کا دین ہے۔ جھگڑا چھوڑ دینا— حق پر ہونے کے باوجود—عظیم عمل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( أَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَإِنْ کَانَ مُحِقًّا ))
سنن ابی داود: 4800 (وحسنہ الألبانی)
ترجمہ
"میں اس شخص کے لیے جنت کے کنارے میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے۔”
⓬ مزاح میں بھی جھوٹ سے بچنا
سچائی اسلام کی بنیاد ہے۔ مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(( وَبِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ وَإِنْ کَانَ مَازِحًا ))
سنن ابی داود: 4800 (وحسنہ الألبانی)
ترجمہ
"اور میں اس شخص کے لیے جنت کے درمیانی حصے میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو مذاق میں بھی جھوٹ چھوڑ دے۔”
⓭ حسنِ اخلاق
حسنِ اخلاق قیامت کے دن میزان میں سب سے وزنی عمل ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( مَا مِنْ شَیْیْءٍ یُّوْضَعُ فِی الْمِیْزَانِ أَثْقَلَ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ ))
جامع الترمذی: 2003 (وصححہ الألبانی)
ترجمہ
"ترازو میں سب سے زیادہ وزنی چیز حسنِ اخلاق ہے۔”
اور فرمایا:
(( وَبِبَیْتٍ فِیْ أَعْلَی الْجَنَّۃِ لِمَنْ حَسُنَ خُلُقُہُ ))
سنن ابی داود: 4800 (وحسنہ الألبانی)
ترجمہ
"اور میں اس شخص کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جس کا اخلاق اچھا ہو۔”
⓮ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ وابستہ رہنا
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
﴿ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوا ﴾
آل عمران: 103
ترجمہ
"تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں مت بٹو۔”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَۃَ الْجَنَّۃِ فَلْیَلْزَمِ الْجَمَاعَۃَ ))
جامع الترمذی: 2165 (وصححہ الألبانی)
ترجمہ
"جو شخص جنت کے وسط میں رہنا چاہتا ہے، وہ جماعت کے ساتھ وابستہ رہے۔”
نتیجہ
اگر ہم جنت کے گھروں اور محلات کے حقیقی امیدوار بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگی کو ایمان، اطاعت، اخلاق اور اخلاص سے مزین کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان اعمال کی توفیق دے اور ہمیں جنت الفردوس کے محلات میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔