سوال:
کیا جہنم پیدا ہو چکی ہے؟
جواب:
جنت اور جہنم اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں ، یہ پیدا ہو چکی ہیں۔
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اشتكت النار إلى ربها فقالت : رب أكل بعضي بعضا، فأذن لها بنفسين؛ نفس فى الشتاء ونفس فى الصيف، فأشد ما تجدون من الحر ، وأشد ما تجدون من الزمهرير.
”جہنم نے رب سے شکایت کی : میرے رب ! میرا ایک حصہ دوسرے کو کھا رہا ہے، مجھے دو سانس لینے کی اجازت عطا فرما! ایک سانس سردیوں میں اور دوسرا گرمیوں میں۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ) لہذا گرمی یا سردی کی جتنی شدت آپ محسوس کرتے ہیں ، ( وہ جہنم کے سانس لینے سے ہے)۔“
(صحيح البخاري : 3260 ، صحیح مسلم : 617)
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
في هذا الحديث دليل على أن الجنة والنار مخلوقتان بعد وهو قول جماعة أهل السنة أهل الفقه والحديث.
”یہ حدیث دلیل ہے کہ جنت اور جہنم پیدا ہو چکی ہیں ، اہل سنت فقہا اور محدثین کی جماعت کا یہی عقیدہ ہے۔“
(الاستذكار : 103/1)
❀ علامہ ابن العربی رحمہ اللہ (543ھ) فرماتے ہیں:
في هذا الحديث دليل بأن النار مخلوقة، ردا على من قال : إنها لم تخلق وإنما تخلق وقت الحاجة إليها.
”اس حدیث میں دلیل ہے کہ جہنم مخلوق ہے، اس میں ان لوگوں کا رد ہے، جو کہتے ہیں کہ جہنم کو ابھی تک پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ وہ اسی وقت پیدا ہوگی، جب اس کی ضرورت ہوگی (یعنی قیامت کے دن ) ۔“
(المسالك في شرح موطأ مالك : 454/1)
❀ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (463ھ) ایک حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
هذا الحديث دليل على أن الجنة والنار مخلوقتان كما يقول جماعة أهل السنة وهم الجماعة الذين هم الحجة أهل الر أى والآثار.
”اس حدیث میں دلیل ہے کہ جنت اور جہنم مخلوق ہیں، جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے، یہی وہ جماعت ہے، جن کا عقیدہ حجت ہے، جو فقہا اور محدثین پر مشتمل ہے۔“
(الاستذكار : 86/3)
❀ علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (792 ھ) فرماتے ہیں :
”اہل سنت کا اتفاق ہے کہ جنت اور جہنم پیدا ہو چکی ہیں اور اس وقت موجود ہیں ، اہل سنت ہمیشہ سے اسی عقیدہ پر قائم رہے ہیں۔ یہاں تک کہ معتزلہ اور قدریہ کا ایک فرقہ نمودار ہوا، اس نے اس کا انکار کر دیا، کہنے لگے : ( جنت اور جہنم ابھی پیدا نہیں ہوئیں ) بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن پیدا کرے گا۔ انہوں نے یہ بات اپنی اس فاسد دلیل کی بنیاد پر کہی کہ جس دلیل کی بنیاد پر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے افعال کے لیے اپنی شریعت وضع کر دی۔ کہ اللہ تعالیٰ کو ایسا کرنا چاہیے اور اللہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کومخلوق کے افعال پر قیاس کیا، یوں وہ افعال میں مشبہہ قرار پائے۔ ان میں جمعیت داخل ہوئی ، تو مشہہ کے ساتھ ساتھ وہ معطلہ بھی بن گئے۔ انہوں نے کہا: استعمال سے پہلے سے جنت کو پیدا کرنا عبث ہے، کیونکہ اس سے جنت لمبے عرصے تک خالی رہے گی، یوں انہوں نے ایسی بہت سے نصوص کو ٹھکرا دیا، جو ان کی اللہ تعالیٰ کے لیے وضع کردہ شریعت کے مخالف ہوں ، بہت سے نصوص کے معانی و مطالب کو بدل دیا اور جس نے ان کی وضع کردہ شریعت کی مخالفت کی ، انہیں گمراہ اور بدعتی قرار دیا ۔“
(شرح العقيدة الطحاوية ، ص 420 )