جنازے کے لیے کھڑے ہونے کا حکم اور اس کی منسوخی
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جنازے کے لیے کھڑا ہونا منسوخ ہے

مراد یہ ہے کہ جنازہ گزرے تو اسے دیکھ کر اپنی جگہ پر کھڑے ہو جانا۔ پہلے یہی حکم تھا جیسا کہ دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا رأيتم الجنازة فقوموا….
”جب تم جنازه دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ ….“
[بخاري: 1310 ، كتاب الجنائز: باب من تبع جنازة فلا يقعد حتى توضع ]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمارے قریب سے ایک جنازہ گزرا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے کھڑے ہو گئے لٰہذا ہم بھی کھڑے ہو گئے ۔ پھر ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! یقینا یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا رأيتم الجنازة فقوموا لها
”جب تم کوئی جنازہ دیکھو تو اس کے لیے کھڑے ہو جاؤ ۔“
[بخاري: 1311 ، كتاب الجنائز: باب من قام لجنازة يهودى ، مسلم: 960 ، أحمد: 319/3 ، أبو داود: 3174]
➌ حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا رأيتم الجنازة فقوموا لها حتى تخلفكم أو توضع
”جب تم جنازہ دیکھو تو اس کے لیے اس وقت تک کھڑے رہو جب تک کہ وہ تمہیں پیچھے نہ چھوڑ جائے یا رکھ نہ دیا جائے ۔“
[بخاري: 1307 ، كتاب الجنائز: باب القيام للجنازة ، مسلم: 958 ، أبو داود: 3172 ، ترمذي: 1042 ، نسائي: 44/4 ، ابن ماجة: 1542 ، شرح معاني الآثار: 486/1 ، بيهقى: 25/4 ، أحمد: 445/3]
(البانیؒ) یہ قیام بھی منسوخ ہو چکا ہے۔
[أحكام الجنائز: ص/ 100]
(مالکؒ ، ابو حنیفہؒ ، شافعیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 23/3]
نسخ کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرنا بالقيام فى الجنازة ثم جلس بعد ذلك وأمرنا بالجلوس
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازے میں ہمیں کھڑے ہونے کا حکم دیا پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھنے لگے اور ہمیں بھی بیٹھنے کا حکم دے دیا۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2818 ، أحمد: 82/1 ، مؤطا: 232/1 ، أبو داود: 3175 ، ابن ماجة: 1544]
➋ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قریب سے ایک جنازہ گزرا تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ ، کھڑے ہو گئے لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کھڑے نہ ہوئے ۔ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ کیا اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نہیں ہوئے؟ تو انہوں نے کہا : قام وقعد ”کھڑے ہوئے اور بیٹھ گئے ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 1816 ، كتاب الجنائز: باب الرخصة فى ترك القيام ، أحمد: 200/1 ، نسائي: 1925]
بعض علماء ان احادیث کو ناسخ نہیں بلکہ جواز کے لیے دلیل قرار دیتے ہیں یعنی کھڑا ہونا ہی بہتر ہے لیکن ان احادیث کی وجہ سے اگر کوئی بیٹھ جائے تو یہ بھی جائز ہے۔
(ابن حزمؒ ، نوویؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[نيل الأوطار: 23/3 ، شرح مسلم: 34/4]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1