جنازے کے ساتھ چلنے اور اسے کندھا دینے کی سنت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جنازے کے ساتھ چلنا اور اسے کندھا دینا سنت ہے

➊ حدیث نبوی ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
وإذا مات فاتبعه
”اور جب وفات پا جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو۔“
[مسلم: 2162 ، كتاب السلام: باب من حق المسلم للمسلم رد السلام]
➋ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عودوا المريض واتبعوا الجنائز تذكركم الآخرة
”بیمار کی عیادت کرو اور جنازوں میں شرکت کرو، وہ تمہیں آخرت یاد دلائیں گے ۔“
[حسن: أحكام الجنائز: ص/ 87 ، ابن أبى شبيبة: 73/4 ، بخارى فى الأدب المفرد: ص/ 75 ، أحمد: 27/3 ، شرح السنة: 166/1]
(امیر صنعانیؒ ) پہلی حدیث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان (معروف ہو یا غیر معروف) کے جنازے میں شرکت کرنا واجب ہے۔
[سبل السلام: 1975/4]
(البانیؒ) جنازے کو کندھا دینا اور اس کے پیچھے چلنا واجب ہے۔
[أحكام الجنائز: ص/86]
➌ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
من اتبع جنازة فليحمل بجوانب السرير كلها
”جو شخص جنازے میں شرکت کرے وہ (میت کی) چار پائی کے تمام اطراف کو کندھا دے ۔
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 1478 ، أبو داود طبالسي: 44 ، بيهقي: 16/4 ، اس كي سند منقطع هے۔]
➍ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
من حمل الجنازة بجوانبها الأربعة فقد قضى الذى عليه
”جس شخص نے جنازے کے چاروں اطراف کو کندھا دیا اس نے اپنا فرض ادا کر دیا ۔“
[عبد الرزاق: 512/3 ، 65/8]
اس مسئلے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے کہ چار پائی کی تمام جوانب کو کندھا دینا چاہیے یا کہ کسی ایک جانب کو کندھا دینا ہی کافی ہے۔ ہمارے علم کے مطابق کسی صحیح حدیث سے جنازے کو کندھا دینے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا لہذا یہ بھی ضروری نہیں کہ چاروں اطراف کو کندھا دیا جائے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: الأم 450/1 ، الحاوى: 39/3 ، المبسوط: 56/2 ، بدائع الصنائع: 30931 ، الهداية: 93/1 ، حاشية الدسوقى: 421/1 ، المغنى: 403/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1