جنازے کے ساتھ سوار ہو کر جانا مکروہ ہے
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جانور لایا گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے ساتھ تھے:
فأبى أن يركبها فلما انصرف أتى بدابة فركب
”تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سوار ہونے سے انکار کر دیا لیکن جب آپ جنازے سے واپس ہوئے اور آپ کے پاس ایک جانور لایا گیا تو آپ سوار ہو گئے ۔“ جب آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
ان الملئكة كانت تمشى فلم أكن لأركب وهم يمشون فلما ذهبوا ركبت
”بے شک فرشتے (جنازے کے ساتھ ) چل رہے تھے تو میں ایسا نہ کر سکا کہ سوار ہو جاتا اور وہ چل رہے ہوتے لیکن جب وہ چلے گئے تو میں سوار ہو گیا۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2720 ، كتاب الجنائز: باب الركوب فى الجنازة ، أبو داود: 3177]
➋ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابن دحداح رضی اللہ عنہ کے جنازے میں جاتے ہوئے پیدل گئے اور واپسی پر سوار ہو کر لوٹے ۔
[صحيح: صحيح أبو داود: 2721 ، كتاب الجنائز: باب الركوب فى الجنازة ، أبو داود: 3178 ، مسلم: 965 ، ترمذي: 1013 ، أحمد: 90/5 ، نسائي: 85/4]
➌ جس روایت میں یہ لفظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
ألا تستحيون أن ملائكة الله يمشون على أقدامهم وأنتم ركبان
”کیا تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی کہ اللہ کے فرشتے تو اپنے قدموں پر چل رہے ہوں اور تم سوار ہو ۔“ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 323 ، كتاب الجنائز: باب ما جاء فى شهود الجنائز ، ابن ماجة: 1480 ، ترمذي: 1012]
یاد رہے کہ کراہت کے ساتھ جواز بہر حال موجود ہے جیسا کہ پیچھے روایت میں گزرا ہے کہ :
الراكب يسير خلف الجنازة
”سوار جنازے کے پیچھے چلے۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2723 ، كتاب الجنائز: باب المشى أمام الجنازة ، أبو داود: 3180]
(البانیؒ ) سوار ہونا جائز ہے بشرطیکہ جنازے کے پیچھے چلے۔
[أحكام الجنائز: ص/96]