جنازے کو جلدی لے جانے کی ترغیب
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جنازے کو لے کر جلدی چلنا چاہیے

➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أسرعوا بالجنازة
”جنازہ لے جانے میں جلدی کرو ۔“
اس لیے کہ اگر مرنے والا نیک شخص ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کر رہے ہو اور اگر اس کے سوا (برا ) ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو ۔
[بخاري: 1315 ، كتاب الجنائز: باب السرعة بالجنازة ، مسلم: 944 ، أبو داود: 3181 ، ترمذي: 1015 ، نسائى: 42/4 ، ابن ماجة: 1477 ، أحمد: 240/2]
➋ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
ونحن مع رسول الله نرمل رملا
”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جنازہ لے کر ) دوڑا کرتے تھے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2725 ، كتاب الجنائز: باب الإسراع بالجنازة ، أبو داود: 3182 ، أحمد؛ 36/5 ، نسائي: 42/4 ، حاكم: 355/1]
➌ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے وصیت کرتے ہوئے کہا کہ :
إذا انطلقتم بجنازتي فأسرعوا فى المشى
”جب تم میرا جنازہ لے کر چلو گے تو تیز رفتار سے چلنا ۔“
[بیهقى: 22/4]
➍ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مردی جس روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ دیکھا جسے لوگ تیزی سے لے جار ہے تھے تو فرمایا:
لتكن عليكم السكينة
”تم پر اطمینان و سکون ہونا چاہیے۔“ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 322 ، كتاب الجنائز: باب ما جاء فى شهود الجنائز، ابن ماجة: 1479 ، أحمد: 403/4 ، بيهقي: 2224 ، حافظ بوصيريؒ نے اسے ضعيف كها هے ۔ مصباح الزجاجة: 481/1]
➎ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازے کے ساتھ چلنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا :
مادون الحبب
”ایسی چال جو دوڑ سے کم ہو۔“ وہ بھی ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 698 ، كتاب الجنائز: باب الإسراع بالجنازة ، ضعيف ترمذى: 169 ، المشكاة: 1669 ، ترمذي: 1011 ، ابن ماجة: 1484 ، أبو داود: 3184 ، بيهقى: 22/4 ، أحمد: 432/1]
(جمہور ) جنازہ جلدی لے جانا مستحب ہے۔
[الروضة الندية: 428/1]
(ابن حجرؒ ) اسی کو تر جیح دیتے ہیں ۔
[فتح الباري: 539/3]
(نوویؒ) علماء کا اتفاق ہے کہ جنازہ جلدی لے جانا مستحب ہے، الا کہ میت کو کسی نقصان کا اندیشہ ہو۔
[المجموع: 271/5]
(ابن حزمؒ) جنازہ جلدی لے جانا واجب ہے ۔
[المحلى: 154/5]
(البانیؒ) وجوب ہی راجح ہے۔
[أحكام الجنائز: ص/ 94]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1