سوال
آج کل سردی کے دنوں میں ظہر کی نماز عموماً ساڑھے بارہ بجے یا بعض مساجد میں پونے ایک بجے ادا کی جاتی ہے، لیکن جمعہ کے دن اس میں خاصی تاخیر کی جاتی ہے اور وقت ڈیڑھ یا پونے دو بجے تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس بارے میں وضاحت مطلوب ہے کہ نبی اکرمﷺ کا کیا معمول تھا؟ آپﷺ جمعۃ المبارک کا خطبہ کتنا لمبا دیا کرتے تھے اور کیا آپﷺ بھی آج کل کے علماء کی طرح جمعہ کے دن ہمیشہ تاخیر سے ہی نماز پڑھاتے تھے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے آج کے لمبے اور طویل خطبات جمعہ دراصل رسول اللہﷺ کے ارشادات اور معمول مبارک کے خلاف ہیں۔ نبی کریمﷺ ہر جمعہ کو دو خطبے ارشاد فرماتے تھے اور ان دونوں کے درمیان مختصر سا وقفہ لے کر بیٹھتے بھی تھے۔ یہ خطبے قرآن کی تلاوت اور نصیحت و موعظت پر مشتمل ہوتے تھے، جیسا کہ صحیح احادیث میں موجود ہے:
رسول اللہﷺ کے خطبوں کا انداز
➊ دو خطبے اور وعظ و نصیحت:
عَنْ جَابِرِ بن سَمرَۃَ قَالَ کَانَتْ لِلنَّبِیِّﷺ خْطْبَاتَانِ فَجَلَسَ بَیھَھُمَا یَقْرَأُ القُرْاٰنَ وَیَذَکِّرُ الناس۔
(صحیح مسلم کتاب الجمعة ج۱ص۲۸۳)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ دو خطبے ارشاد فرماتے اور ان دونوں کے درمیان بیٹھتے بھی تھے، ان خطبوں میں قرآن کی تلاوت کرتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے۔‘‘
➋ نماز اور خطبے کا درمیانہ ہونا:
عَنْ جَابر بن سَمرۃ قَالَ کُنتُ اُصَلِّی مَع النبیﷺ فَکَانَتْ صَلوتُهُ قَصداً وَخُطبته قصدا۔
(صحیح مسلم ج۱ص۲۸۲ و شرح السنة ج۲ص۵۷۷)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرتا تھا، آپﷺ کی نماز اور خطبہ دونوں درمیانے اور معتدل ہوا کرتے تھے۔
➌ خطبہ مختصر ہونا چاہیے:
عن عمار قال سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ، وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ، مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ، فَأَطِيلُوا الصَّلَاةَ، وَاقْصُرُوا الْخُطْبَةَ»
(صحیح مسلم ج۱ص۲۸۲ و شرح السنة ج۲ص۵۵۸)
حضرت عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا:
’’لمبی نماز اور مختصر خطبہ دینا خطیب کی سمجھ داری اور فقاہت کی علامت ہے۔ پس نماز کو کچھ طویل کرو اور خطبہ کو مختصر رکھو۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ کی وضاحت
قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَيَكُونُ كَلامُهُ قَصِيرًا بَلِيغًا جَامِعًا، وَأَقَلُّ مَا يَقَعُ عَلَيْهِ اسْمُ الْخُطْبَةِ أَنْ يَحْمَدَ اللَّهَ، وَيُصَلِّيَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُوصِيَ بِتَقْوَى اللَّهِ وهَذِهِ الْخَمْسَة لَا تَصِحُّ جُمُعَتُهُ عِنْدَ الشَّافِعِيِّ۔
(شرح السنة ج۲ص۵۷۸ ونحوہ فی النووی ج۱ص۲۸۴)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
✿ خطبہ رسول اللہﷺ کی طرح مختصر، بلیغ اور جامع ہونا چاہیے۔
✿ جمعہ کے خطبہ میں یہ تین امور فرض ہیں:
1. اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا
2. رسول اللہﷺ پر درود و سلام
3. تقویٰ کی وصیت
✿ مزید یہ کہ پہلے خطبہ میں قرآن کی کم از کم ایک آیت کی تلاوت اور دوسرے خطبہ میں مومنین کے حق میں دعا کرنا واجب ہے۔
✿ اگر ان پانچ میں سے کوئی بات ترک کر دی جائے تو امام شافعی کے نزدیک جمعہ درست نہیں ہوگا۔
خلاصہ
ان تمام احادیث اور اقوال سے واضح ہے کہ:
◈ خطیب پر لازم ہے کہ حتی الوسع نبی اکرمﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرے۔
◈ خطبے کو لمبا کرنا اور نماز کو مؤخر کرنا اسوۂ رسولﷺ کے خلاف ہے۔
◈ کامیابی اور نجات صرف اطاعت رسولﷺ میں ہے، نہ کہ زور خطابت میں۔
توفیق دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب