جمعہ کے دن خصوصی نماز چاشت
جمعہ کے دن مخصوص نماز ثابت نہیں، بلکہ بدعت اور منکر ہے۔
❀ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى الضحى يوم الجمعة أربع ركعات، يقرأ فى كل ركعة بالحمد عشر مرات، وقل أعوذ برب الفلق عشر مرات، وقل أعوذ برب الناس عشر مرات، وقل هو الله أحد عشر مرات، وقل يا أيها الكافرون عشر مرات، وآية الكرسي عشر مرات، يقرأها فى كل ركعة، فإذا صلى الأربع ركعات فتشهد ثم سلم ثم يقول: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم سبعين مرة، ثم يقول: أستغفر الله الذى لا إله إلا هو غافر الذنوب وأتوب إليه سبعين مرة، فمن صلى هذه الصلاة وقال هذا القول على أوصاف (ما وصف) دفع الله عنه شر الليل والنهار وشر أهل السماء وشر أهل الأرض وشر الإنس وشر كل سلطان جائر وشيطان مارد، والذي بعثني بالحق لو كان عاقا لوالديه لرزقه برهما وغفر له، ويقضي له سبعين حاجة من حوائج الآخرة، وسبعين حاجة من حوائج الدنيا. وقال: والذي بعثني بالحق إن له من الثواب كثواب إبراهيم وموسى ويحيى وعيسى، ولا يقطع له طريق ولا يعرف له متاع.
جو جمعہ کے دن چاشت کی چار رکعت ادا کرے، ہر رکعت میں سورت فاتحہ، سورت فلق، سورت ناس، سورت کافرون اور آیت الکرسی دس دس بار پڑھے، جب چار رکعت پڑھ چکے، تو تشہد بیٹھے، پھر سلام پھیر دے، بعد میں سُبْحَانَ اللَّهِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، اللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ کی ستر ستر بار تلاوت کرے، پھر أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ غَافِرُ الذُّنُوبِ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ ستر بار پڑھے، جو یہ نماز پڑھے اور مذکورہ کلمات دہرائے، اللہ تعالیٰ اس سے رات، دن، اہل آسمان، اہل زمین، انسانوں، ہر ظالم بادشاہ اور بڑے سرکش شیطان کے شر کو ہٹا دیتا ہے، اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! اگر وہ اپنے والدین کا نافرمان بھی ہوا، تو بھی اللہ تعالیٰ اسے والدین کی فرمانبرداری کا ثواب دے گا اور اُسے معاف کر دے گا، اس کی ستر اخروی اور ستر دنیوی حاجات پوری فرما دے گا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم، جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! اس کا ثواب سیدنا ابراہیم، سیدنا موسیٰ، سیدنا یحییٰ اور سیدنا عیسیٰ علیہم السلام کے ثواب کی طرح ہے، نہ اس پر ڈاکہ پڑے گا، نہ کوئی اس کے سامان کو پہچان سکے گا۔
(الموضوعات لابن الجوزي: 416/2-417، ح: 992)
جھوٹی اور وضعی روایت ہے۔
➊ ابوالحسن علی بن عبد العزیز کون ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔
➋ علی بن محمد القطان کون ہے؟ تعیین اور توثیق نہیں۔
➌ خلف بن علی قطیعی کی توثیق معلوم نہیں۔
➍ محمد بن ضریس کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
➎ سفیان ثوری کا عنعنہ ہے۔ سفیان ثوری نے مجاہد سے نہیں سنا۔
تاریخ اصبہان لابی نعیم اصبہانی (229/1) الترغیب والترہیب لابی القاسم الاصبہانی (10/3۔11، ح:1966) میں سفیان ثوری اور مجاہد کے درمیان لیث بن ابی سلیم کا واسطہ ذکر ہے۔ لیث بن ابی سلیم جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف اور سی الحفظ ہے۔
لہذا جھوٹی روایت ہے۔
احمد بن صالح ابو جعفر مکی شمومی کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
شيخ كان بمكة يضع الحديث.
یہ مکہ کا شیخ احادیث گھڑتا تھا۔
(الثقات: 26/8، ترجمة: أحمد بن صالح المصري)
سعد بن سعید جرجانی ابوسعید المعروف سعدویہ کے متعلق ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سعد بن سعید ان روایات کو سفیان ثوری وغیرہ سے بیان کرنے میں منفرد ہے، سعد جرجان میں سفیان ثوری کے ساتھ رہا ہے اور ان سے غریب روایتیں بیان کرتا ہے۔ اس نے سفیان سے کچھ مسائل کی بابت بھی سوال وجواب کئے ہیں۔ یہ مسائل سفیان ثوری سے معروف ہیں، ہماری بیان کردہ روایات کے علاوہ بھی سعد نے اجنبی راویوں سے غریب احادیث بیان کر رکھی ہیں۔ سعد نیک آدمی تھا۔ اس کی غیر متبوع روایات کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ ایسا جان بوجھ کر کرتا تھا یا فی نفسہ ضعیف تھا، بلکہ سعد غفلت کی وجہ سے انہیں اسی طرح بیان کر دیتا تھا، صالحین کے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔
(الكامل في ضعفاء الرجال: 357/3-358)
یہ روایت بھی سفیان ثوری رحمہ اللہ سے بیان کر رہے ہیں۔
اسی طرح ابو القاسم اصبہانی کی ایک سند بھی ہے۔ اس میں حسان اور اس کا باپ دونوں نامعلوم ہیں۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث موضوع على رسول الله صلى الله عليه وسلم بلا شك، فلا بارك الله فيمن وضعه، فما أبرد هذا الوضع وما أسمجه، وكيف يحسن أن يقال: من صلى ركعتين فله ثواب موسى وعيسى، وفيه مجاهيل أحدهم قد عمله.
یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گھڑی گئی ہے، اللہ تعالیٰ اس کے گھڑنے والے کو نامراد کرے۔ اس نے یہ روایت گھڑ کر کتنی بے ہودہ حرکت کی ہے، یہ کہنا کہ جو دو رکعتیں ادا کرتا ہے، اسے سیدنا موسیٰ اور سیدنا عیسیٰ علیہما السلام کا ثواب دیا جائے گا، کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ اس میں کئی مجہول ہیں، کسی کی بھی کاروائی ہو سکتی ہے۔
(الموضوعات: 417/2)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيه مجاهيل وضعوه على الفضيل بن عياض.
اس میں کئی مجہول ہیں، جنہوں نے فضیل بن عیاض رحمہ اللہ پر یہ روایات گھڑی ہے۔
(تلخيص الموضوعات، ص180)
❀ حافظ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخرجه الشيرازي فى الألقاب بطوله من طرق عن سفيان ولا شك فى وضعه ويشهد لذلك ركاكة ألفاظه وما فيه من التراكيب الفاسدة ومخالفة مقتضى الشرع فى مواضع. وقد أخرجه أبو نعيم فى كتاب قربان المتقين من حديث على مرفوعا بسندين متصل ومنقطع وقال بعد تخريجه: فيه ألفاظ محذوفة وآثار الوضع عليه لائحة والله أعلم.
شیرازی نے القاب میں سفیان ثوری کی سند سے اس روایت کو مکمل طور پر بیان کیا ہے، اس کے من گھڑت ہونے میں کوئی شک نہیں، نیز رکیک الفاظ، فاسد تراکیب اور مختلف مقامات پر شرعی تقاضوں کی خلاف ورزی اس کا ثبوت ہے کہ یہ من گھڑت ہے۔ حافظ ابو نعیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب قربان المتقین میں اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے متصل اور منقطع سندوں سے نقل کیا ہے، انہوں نے اسے نقل کرنے کے بعد کہا: اس میں جھوٹے الفاظ اور من گھڑت ہونے کی علامات واضح ہیں، واللہ اعلم۔
(اللآلي المصنوعة: 37/2)