جمعہ کے خطبے کے دوران سلام اور جواب کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو تو کیا کسی کو سلام کہنا جائز ہے؟ اور اگر کوئی سلام کہے تو کیا اس کا جواب دینا درست ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی شخص مسجد میں اس حالت میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو، تو اسے چاہیے کہ مختصر دو رکعت نماز تحیة المسجد پڑھ کر خاموشی سے بیٹھ جائے اور کسی کو سلام نہ کہے۔

خطبہ کے دوران سلام کہنا حرام ہے

اس موقع پر سلام کرنا حرام ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِک أنصتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ”
(صحیح البخاری، الجمعة، باب الانصات يوم الجمعة والامام يخطب، حدیث: ۹۳۴، صحیح مسلم، الجمعة، باب فی الانصات يوم الجمعة فی الخطبة، حدیث: ۸۵۱ (۱۱)، واللفظ لمسلم)
یعنی: "جب جمعہ کے دن دوران خطبہ تم اپنے ساتھی سے یہ کہو کہ خاموش ہو جاؤ تو بھی تم نے لغو کام کیا۔”

غیر ضروری حرکتیں بھی منع ہیں

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"وَمَنْ مَسَّ الْحَصٰی فَقَدْ لَغَا”
(سنن ابی داؤد، الصلاة، باب فضل الجمعة، حدیث: ۱۰۵۰، جامع الترمذی، الصلاة، باب ما جاء فی الوضوء يوم الجمعة، حدیث: ۴۹۸)
یعنی: "جس نے کنکری کو چھوا، اس نے لغو کام کیا۔”

لغو عمل سے جمعہ کا ثواب ضائع ہو سکتا ہے

لغو اعمال سے جمعے کے ثواب میں کمی واقع ہوتی ہے، حتیٰ کہ وہ ختم بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:

"وَمَنْ لَغَا فلا جمعة له”
(سنن ابی داؤد، الصلاة، باب فضل الجمعة، حدیث: ۱۰۵۱)
یعنی: "جس نے لغو کام کیا، اسے جمعہ سے کچھ حاصل نہ ہوا۔”

سلام کا جواب دینا

اگر کوئی شخص اس حالت میں سلام کرے تو اس کے جواب میں الفاظ سے جواب دینا (مثلاً "وعلیک السلام”) درست نہیں، چاہے اس نے واضح طور پر "السلام علیک” کہا ہو۔

  • مصافحہ کرنے میں اگرچہ شرعی طور پر کوئی قباحت نہیں، تاہم بہتر یہی ہے کہ مصافحہ سے بھی اجتناب کیا جائے۔
  • بعض اہل علم نے یہ رائے دی ہے کہ دل میں سلام کا جواب دیا جا سکتا ہے، تاہم صحیح قول یہی ہے کہ جواب بھی نہ دیا جائے، کیونکہ:
  • خطبہ سننا واجب ہے۔
  • سلام کا جواب دینا واجب ہونے کے باوجود خطبہ سننے کا وجوب اس پر مقدم ہے۔
  • خطبہ کے دوران سلام کہنا دوسروں کی توجہ ہٹانے کا باعث بنتا ہے، جبکہ خطبہ سننا فرض ہے۔

لہٰذا جب امام خطبہ دے رہا ہو تو:

  • نہ سلام کیا جائے
  • نہ سلام کا جواب دیا جائے

اختلافی رائے

البتہ حضرت الشیخ رحمہ اللہ کے اس قول سے مکمل اتفاق ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ:

  • اگر کوئی دل میں سلام کا جواب دے تو اس سے خطبہ سننے میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔
  • آواز سے جواب دینا بلاشبہ خطبہ میں خلل ڈال سکتا ہے، لہٰذا وہ ناجائز ہے۔
  • آہستہ یا دل میں جواب دینے میں کوئی معقول ممانعت نظر نہیں آتی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1