جمعہ کے خطبے سے پہلے اذان دینا: کیا شرعاً جائز ہے
سوال:
جمعہ کے دن خطبہ کے وقت جو اذان دی جاتی ہے، کیا اس اذان سے پہلے بھی اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟ تاکہ لوگوں کو جلد اطلاع ہو جائے اور وہ جمعہ کے خطبے و نماز کے لیے تیاری کر لیں۔
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
جمعہ کے دن جو اذان خطبہ کے وقت دی جاتی ہے، اس سے پہلے اذان دینا شرعاً جائز ہے۔
اس کی دلیل:
اس مسئلے کی دلیل صحیح بخاری میں موجود ہے، جو کہ ’’باب الاذان عند الخطبہ‘‘ کے تحت مذکور ہے۔ اس حدیث کو ملاحظہ کیجیے:
((عن الزهرى قال سمعت السائب بن يزيديقول ان الاذان يوم الجمعة كان اوله حين يجلس الامام يوم الجمعة علي المنبر فى عهدرسول الله صلي الله عليه وسلم وابى بكروعمررضى الله عنه كان فى خلافته عثمان رضى الله عنه وكثرهاامرعثمان يوم الجمعة بلاذان الثالث فاذن على الزوراء فشت الامرعلى ذلك.))
(صحیح بخاری، کتاب الجمعہ، باب الاذان یوم الجمعہ)
حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سائب بن یزید (یہ صغیر صحابی ہیں) سے سنا، جو فرما رہے تھے:
"رسول اللہﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں جمعہ کے دن اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام خطبہ کے لیے منبر پر بیٹھتا۔ پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا اور لوگ زیادہ ہو گئے، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تیسری اذان کا حکم دیا (یعنی وہ اذان جو خطبہ کے وقت اور اقامت کے علاوہ ہوتی ہے)، اور وہ اذان زوراء کے مقام پر دی گئی۔”
عمل کا دوام:
اس پر مزید سنن کبریٰ للبیہقی میں اضافی الفاظ بھی ہیں:
"حتى الساعة”
یعنی: یہ عمل اب تک قائم ہے۔
یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ عمل صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے تک محدود نہیں رہا بلکہ بعد میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا، اور کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔
صحابہ کرام کا اجماع:
یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ:
◈ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو اذانِ ثالثہ کا اضافہ کیا، وہ تمام صحابہ کرام کی رضامندی سے تھا۔
◈ کسی خلیفہ راشد یا کسی دوسرے صحابی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔
◈ اس پر صحابہ کرام کا اجماع ثابت ہے، جیسا کہ الفاظ "فثبت الأمر على ذلك حتى الساعة” سے معلوم ہوتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر خلفاء کا طرز عمل:
◈ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس عمل کو تبدیل نہیں کیا۔
◈ ان کے دور خلافت میں بھی یہی معمول رہا۔
◈ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی یہ عمل برقرار رہا۔
یہ کیسے ثابت ہوا؟
➊ امام زہری کی پیدائش 50 ہجری کے بعد ہوئی۔
➋ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات 40 ہجری میں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات 60 ہجری میں ہوئی۔
➌ یعنی امام زہری ان خلفاء کے دور کو مکمل طور پر نہیں پا سکے، لیکن حضرت سائب بن یزید (جنہوں نے یہ سب کچھ خود دیکھا) سے انہوں نے یہ روایت براہ راست سنی۔
➍ حضرت سائب بن یزید کی وفات 91 ہجری میں ہوئی، اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اذانِ ثالثہ کا عمل ان کے زمانے تک بھی قائم رہا اور وہ خود بھی اس پر گواہ تھے۔
نتیجہ:
◈ خلفائے راشدین کا یہ عمل اجماعِ صحابہ سے ثابت ہے۔
◈ آنحضرت ﷺ کے صحابہ کا اجماع شرعی حجت ہے۔
◈ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ عمل صحیح نہ ہوتا، تو دوسرے صحابہ ضرور اس پر اعتراض کرتے۔
ایک اہم حدیث:
((فعليكم بسنتى وسنة الخلفاءالراشدين المهديين.))
(ابوداود، كتاب السنة، باب فى لزوم السنة، حدیث نمبر: 4607)
’’یعنی تم میری سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑ لو۔‘‘
دونوں طریقے درست ہیں:
◈ چونکہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں خطبہ سے پہلے والی اذان کا رواج نہیں تھا، اس لیے اگر کوئی مسجد یہ اذان نہیں دیتی، تو اس پر بھی طعن و تنقید جائز نہیں۔
◈ جو مسجدیں اذانِ ثالثہ دیتی ہیں، وہ بھی درست عمل پر ہیں۔
◈ اور جو صرف خطبہ کے وقت والی اذان دیتے ہیں، وہ بھی برائی کا ارتکاب نہیں کر رہے۔
لہٰذا، دونوں طریقے درست اور قابل قبول ہیں، کسی پر تنقید کرنا انصاف کے خلاف ہے۔
زوراء پر اذان دینے کا سبب:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اذان زوراء پر اس لیے دلوائی تاکہ:
◈ لوگوں کو جمعہ کی نماز اور خطبے کے قریب ہونے کا علم ہو جائے۔
◈ یہ سہولت کے پیش نظر کیا گیا، تاکہ سب لوگ وقت پر مسجد پہنچ سکیں۔
آج کے دور میں یہ ضروری نہیں کہ اذان کسی مخصوص مقام (مثلاً زوراء) پر دی جائے، بلکہ:
◈ مسجد کے مینار پر
◈ مسجد کے اندر کسی بلند مقام پر
◈ یا لاؤڈ اسپیکر کے قریب اذان دی جا سکتی ہے
اصل مقصد یہ ہے کہ آواز لوگوں تک پہنچے۔ یہی قول محققین کا ہے۔
نتیجہ کلام:
اذانِ ثالثہ دینا سنتِ خلفائے راشدین ہے، جو کہ صحابہ کرام کے اجماع سے ثابت ہے۔ لہٰذا اس پر عمل بھی درست ہے اور نہ دینا بھی گنجائش میں ہے۔ دونوں پر تنقید ناجائز ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب