سوال
ایک اہل حدیث مسجد میں امام صاحب جو جماعت اسلامی کے رکن ہیں، دو سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں شمولیت کی وجہ سے جماعت اہل حدیث دو فریقوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ کچھ لوگ انہیں ہٹانے اور کسی ایسے عالم کو مقرر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو مکمل طور پر اہل حدیث کے مقاصد کے لیے کام کرے۔ اس صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا امام صاحب کو الگ کر دینا چاہیے؟
جواب
اس معاملے میں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ امام صاحب اگر جماعت اہل حدیث کے بجائے جماعت اسلامی کی جماعت کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنی خدمات زیادہ تر جماعت اسلامی کے لیے وقف کرتے ہیں، تو بہتر یہ ہے کہ وہ خود ہی عہدہ چھوڑ دیں۔ امام کا تقرر ایک دینی جماعت کی طرف سے ہوتا ہے، اور انہیں اس جماعت کی ضروریات اور مقاصد کے مطابق کام کرنا چاہیے، خاص طور پر جب ان کی تنخواہ جماعت اہل حدیث کی طرف سے دی جا رہی ہو۔
اہل حدیث جماعت کو اتنا بے حس نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مسجد کا امام کسی اور جماعت کے مقاصد کے لیے کام کرتا رہے۔ جماعت اہل حدیث کو اپنے دینی مقاصد اور خدمات میں مستحکم اور پرعزم ہونا چاہیے۔ دینی لحاظ سے اہل حدیث کسی بھی دوسری جماعت سے کم نہیں ہیں اور ان کے پاس اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے علماء کی کمی نہیں ہے۔
اگر امام صاحب اپنے تعلقات اور سرگرمیوں کو جماعت اسلامی کے ساتھ زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اہل حدیث کی خدمات سے غافل ہیں، تو یہ بہتر ہوگا کہ انہیں ہٹا دیا جائے اور کسی ایسے عالم کا تقرر کیا جائے جو جماعت اہل حدیث کے مقاصد اور خدمات کے لیے مکمل طور پر وقف ہو۔
حوالہ: (مولانا عبید اللہ رحمانی، المحدث دہلی، جلد نمبر ۱، شمارہ نمبر ۳)