جلسہ استراحت
عن مالك بن الحويرث أنه إذا رأى النبى صلى الله عليه وسلم يصلي، فإذا كان فى وتر من صلاته لم ينهض حتى يستوي قاعدا
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی طاق رکعت (یعنی پہلی اور تیسری رکعت) میں ہوتے تو (دوسرے سجدے کے بعد) یکدم کھڑے نہ ہوتے تھے بلکہ بیٹھ جاتے (پھر کھڑے ہوتے تھے)۔ [صحیح البخاری: 113/1 حدیث 823]
فوائد
اس حدیث پاک سے جلسہ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ جناب ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع الیدین کرتے تھے۔ پہلی رکعت میں دوسرے سجدے سے جب فارغ ہوتے تو بیٹھ جاتے، دو رکعتیں پڑھ کر جب کھڑے ہوتے تو رفع الیدین کرتے، اور آخری رکعت میں ”تورک“ کرتے تھے۔ [سنن الترمذی ج 1 ص 67 ح 304، وقال: ہذا حدیث حسن صحیح]
اس حدیث کو ابن خزیمہ (ج1 ص 297-298 ح 588-587)، ابن حبان (موارد: 442، 491-492)، بخاری (فی جزء رفع الیدین ح 5-6) ابن تیمیہ اور ابن القیم وغیرہم نے صحیح کہا ہے۔ اس کی سند متصل ہے اور عبد الحمید بن جعفر جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہے۔ [دیکھیے نصب الرایہ: 344/1] اس پر جرح مردود ہے۔
(2)بعض لوگ جلسہ استراحت کو واجب کہتے ہیں کیونکہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں اس کا حکم آیا ہے۔ [دیکھیے 924/2 ح 6251] حدیث بالا کے راوی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ صلوا كما رأيتموني أصلي ”نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔“ [صحیح البخاری ج 1 ح 631]
(3)ابو داود کی جس حدیث میں لم يتورك آپ نے تورک نہیں کیا، آیا ہے (اس میں چند الفاظ پہلے فتورك پس آپ نے تو رک کیا کے الفاظ ہیں) [145/1 ح 966، 113/1 ح 733]
اگر یہ روایت صحیح ثابت ہوتی ہے تو اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ آپ نے دوسرے سجدے کے بعد تورک نہیں کیا یعنی اپنی ران پر نہیں بیٹھے۔ یہ حدیث جلسہ استراحت کی مخالف نہیں ہے کیونکہ جلسہ استراحت میں بغیر تورک بیٹھا جاتا ہے۔ جو لوگ اس حدیث سے صحیح بخاری کے مخالف استدلال کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ سجدہ اولیٰ کے بعد تو رک کریں۔ معانی الآثار 620/1 وغیرہ میں اس حدیث لم يتورك میں رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین موجود ہے آدھی حدیث سے استدلال اور آدھی کا ینکار کیا معنی رکھتا ہے؟
تنبیہ: ابو داود (733، 966) والی اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ اس کا راوی عیسیٰ بن عبد اللہ بن مالک مجہول الحال ہے۔ اسے ابن حبان کے علاوہ کسی دوسرے محدث نے ثقہ و صدوق قرار نہیں دیا۔
(4)نصب الرایہ 289/1، الجوہر النقی 125/2 وغیرہما میں مخالفین جلسہ استراحت نے جو آثار نقل کیے ہیں، ان میں سے کوئی بھی صحیح صریح نہیں ہے۔ بیہقی کی جس روایت میں رمقت ابن مسعود ہے سفیان کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اسے عن ابن مسعود صحيح کہنا صحیح نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ حدیث مرفوع کے مقابلے میں اپنی مرضی کے آثار پیش کرنا انتہائی غلط کام ہے۔