بیویوں کے درمیان باری اور ضروریات زندگی میں انصاف کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جس کی دو یا اس سے زائد بیویاں ہوں وہ باری تقسیم کرنے اور دیگر ضروریات زندگی میں (ان کے درمیان ) انصاف کرے
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيمة وشقه مائل
”جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف مائل (یعنی زیادہ وقت دے یا زیادہ خرچ کرنے والا) ہو تو وہ روز قیامت ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو مفلوج ہو گا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1867 ، كتاب النكاح: باب القسم بين النساء ، ابو داود: 2133 ، ترمذي: 1141 ، ابن ماجة: 1969 ، نسائي: 63/7 ، أحمد: 471/2 ، دارمي: 143/2 ، حاكم: 186/2 ، ابن حبان: 4207 ، بيهقي: 297/7]
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نو بیویوں کی باری مقرر کر رکھی تھی نیز جس دن جس بیوی کی باری ہوتی دوسری تمام بیویاں بھی اس کے گھر میں جمع ہوتیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بیٹھتے ، ان سے گفت و شنید کرتے ، حتی کہ جس کی باری ہوتی تو اس کے پاس رات گزارتے ۔
[مسلم: 1462 ، أحمد: 107/6 ، ابو داود: 2135 ، صحيح أبو داود: 1868]
معلوم ہوا کہ اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کی باری مقرر کرنا ، ہر ایک کو مناسب اور برابر وقت دینا اور حتی الوسع ان کے درمیان عدل کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ تا ہم واضح رہے کہ یہ ایسے عدل کی بات ہے جس کی انسان قدرت و طاقت رکھتا ہے مثلاََ باری مقرر کرنا ، لباس اور کھانا وغیرہ مہیا کرنا ۔ علاوہ ازیں جہاں انسان عدل کی طاقت ہی نہیں رکھتا مثلاََ قلبی میلان و محبت وغیرہ تو اس کا انسان سے مواخذہ نہیں ہو گا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس معاملے میں عاجز رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تمام بیویوں میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ سب سے زیادہ محبت تھی۔
ایک روایت میں بھی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم باری تقسیم کرتے اور عدل سے کام لیتے پھر فرماتے:
اللهم هذا قسمى فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك
”اے اللہ ! یہ میری تقسیم ایسے معاملے میں ہے جس کی میں قدرت رکھتا ہوں اور مجھے ایسے معاملے میں ملامت مت کرنا جس کی تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا ۔ “
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 467 أيضا ، ابو داود: 2134 ، ترمذي: 1140 ، ابن ماجة: 1971 ، نسائي: 64/7 ، دارمي: 144/2 ، ابن حبان: 4205 ، حاكم: 187/2 ، بيهقي: 298/7]
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمُ [النساء: 129]
”تم سے یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ اپنی بیویوں میں ہر طرح عدل کرو گو تم اس کی کتنی ہی خواہش و کوشش کرو ۔“
لٰہذا کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے خود ہی بتلا دیا ہے کہ :
فَلا تَمِلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ [أيضا]
”اس لیے بالکل ہی ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو لٹکتی ہوئی نہ چھوڑ دو (کہ نہ اسے طلاق دو اور نہ ہی حقوق زوجیت ادا کرو)۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1