جس نے کسی عورت سے شادی کی اور مہر مقرر نہ کیا تو اسے اس کی عام عورتوں کی مثل مہر دیا جائے گا جبکہ اس نے اس کے ساتھ قربت کے تعلقات قائم کر لیے ہوں
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرد اور عورت کی شادی کروائی لیکن اس آدمی نے مہر مقرر نہ کیا پھر ہم بستری بھی کر لی حتی کہ جب اس کی وفات کا وقت آن پہنچا تو اس نے اپنا خیبر کا حصہ لوگوں کو گواہ بناتے ہوئے (بطور مہر ) اس عورت کو دے دیا۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 1859 ، كتاب النكاح باب فيمن تزوج ولم يسم صداقا حتى مات ، ابو داود: 2117 ، حاكم: 181/2]
➋ علقمہؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایسے آدمی کے متعلق سوال ہوا جس نے کسی عورت سے نکاح کیا لیکن اس کے لیے مہر مقرر نہ کیا اور اس سے ابھی ہم بستر بھی نہ ہوا تھا کہ فوت ہو گیا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا:
لها مثل صداق نسائها لا وكس ولا شطط
”اس عورت کو اس کے خاندان کی عورتوں کے مثل مہر ملے گا ، اس میں نہ کمی ہو گی نہ زیادتی ۔“
اس عورت پر عدت گزارنا بھی لازم ہے اور اس کے لیے میراث بھی ہے۔ یہ سن کر (اس مجلس میں موجود ) حضرت معقل بن سنان رضی اللہ عنہ ، کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہماری ایک عورت ”بروع بنت واشق“ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی فیصلہ فرمایا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 1858 ، أحمد: 480/3 ، ابو داود: 2116 أيضا ، ترمذي: 1145 ، نسائي: 121/6 ، ابن ماجة: 1891 ، ابن الجارود: 718 ، عبد الرزاق: 10898 ، ابن حبان: 4100 ، حاكم: 180/2 ، بيهقي: 245/7]
معلوم ہوا کہ جس عورت کا مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اسے (خاوند کی وفات پر ) مہر مثل دیا جائے گا خواہ اس سے مباشرت و ہمبستری کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔
(احمدؒ ، ابو حنیفہؒ) اسی کے قائل ہیں۔ امام ابن سیرینؒ ، امام ابن ابی لیلیؒ اور امام اسحاقؒ بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔
(مالکؒ) ایسی عورت جس سے ہم بستری نہیں کی گئی صرف میراث کی مستحق ہے مہر کی نہیں کیونکہ مہر وطی و مباشرت کا عوض ہے۔
ایک روایت کے مطابق امام شافعیؒ کا بھی یہی موقف ہے۔
[نيل الأوطار: 256/4 ، الحاوى: 539/9 ، المبسوط: 94/5 ، الخرشي: 260/3]
(راجح) پہلا موقف گذشتہ صحیح احادیث کے موافق ہے۔
(ابن قدامہؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[المغنى: 149/10]