سوال:
شوہر کے لاپتا ہونے پر عورت کیا کرے؟
جواب:
ایسا آدمی جو شادی کے بعد گھر سے لاپتا ہو جائے، اسے شرعاً مفقود الخبر کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور جب اس کے لاپتا ہونے کی خبر یقینی طور پر ملے اس وقت سے چار سال گزر جانے پر اس کے مرنے کا حکم لگا دیا جائے گا اور اس کے بعد مذکورہ عورت چار ماہ دس دن یعنی متوفی عنھا زوجھا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہو گیا ہو، کی عدت گزار کر اگر دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔ اس مسئلہ کے متعلق کوئی مرفوع روایت تو موجود نہیں، البتہ آثار صحابہ کرام موجود ہیں۔ خلیفہ المسلمین فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح ثابت ہے، جیسا کہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے عمل کرتے ہیں:
تربصت امرأة المفقود أربع سنين ثم تعتد عدة المتوفى عنها زوجها وتزوج إن شاءت
(سنن سعيد بن منصور (1752) (100/1)، موطأ مالك وَتَزَوَّجُ باب عدة التى تفقد زوجها (332)، في النسخة الأخرى (93/2، ح : 52)، سنن كبرى بيهقي (445/7)، مصنف عبد الرزاق (88/7))
”لا پتا آدمی کی بیوی چار سال انتظار کرے، پھر متوفی عنھا زوجھا یعنی جس کا شوہر فوت ہو گیا ہو والی عدت گزارے یعنی چار ماہ دس دن اور اس کے بعد اگر چاہے تو شادی کر لے۔“
امام سعید بن مسیب سے مصنف عبد الرزاق میں روایت ہے:
أن عمر وعثمان قضيا فى المفقود أن امرأته تتربص أربع سنين وأربعة أشهر وعشرا بعد ذلك ثم تزوج
(مصنف عبد الرزاق (85/7)، بيهقي (445/7))
”عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما دونوں خلفاء نے لاپتا شوہر کے بارے فیصلہ دیا ہے کہ اس کی بیوی چار سال انتظار کرے اور اس کے بعد چار ماہ دس دن عدت گزار کر شادی کر لے۔“
سیدنا جابر بن زید رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس اور عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
تنتظر امرأة المفقود أربع سنين
(سنن سعيد بن منصور (1756) (402/1) بيهقي (445/7))
”لا پتا شوہر کی بیوی چار سال انتظار کرے۔“
امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إذا فقد فى الصف تربصت سنة وإذا فقد فى غير الصف فأربع سنين
(مصنف عبد الرزاق (89/7))
”جب آدمی صف قتال میں لاپتا ہو جائے تو عورت ایک سال انتظار کرے اور جب لڑائی کی صف کے علاوہ لاپتا ہو جائے تو چار سال انتظار کرے۔“
امام قتارہ بن دعامہ السدوسي رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”جب ایسی عورت کا معاملہ حاکم تک پہنچایا جائے، پھر چار سال گزر جائیں تو ایسے آدمی کا مال اس کے ورثاء میں بانٹ دیا جائے گا، یعنی چار سال کے بعد اس کی موت کا حکم لگا دیا جائے اور اس کی جائیداد وغیرہ وارثوں میں تقسیم ہو جائے گی۔“
(مصنف عبد الرزاق (90/7)) امام محمد بن مسلم المعروف ابن شہاب زہری کا مسلک بھی یہی ہے۔ (فتح الباري (431/9))
حافظ ابن حجر عسقلاني رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وثبت أيضا عن عثمان وابن مسعود فى رواية وعن جمع من التابعين النخعي وعطاء والزهري ومكحول والشعبي واتفق أكثرهم على أن التأجيل من يوم ترفع أمرها للحاكم وعلى أنها تعتد عدة الوفاة بعد مضي الأربع سنين
(فتح الباري (421/9))
”یہ بات عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور ایک روایت کے مطابق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور تابعین کی ایک جم جماعت جیسے نخعی، عطاء، زہری، مکحول اور شعبی سے ثابت ہے اور اکثر کا ان میں سے اس بات پر اتفاق ہے کہ مقررہ مدت اس دن سے شروع ہو گی جب عورت کا معاملہ حاکم کی طرف پہنچایا گیا اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ چار سال گزرنے کے بعد وہ شوہر کی وفات کی عدت گزارے گی۔“
اس کے برعکس فقہ حنفی میں جس کا شوہر بالکل لاپتا ہو جائے تو اس کی عورت اتنا انتظار کرے کہ شوہر کی عمر نوے برس کی ہو جائے تو پھر اس کے مرنے کا حکم لگایا جائے گا۔ مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی اپنی کتاب اصلی بہشتی زیور میں ”میاں کے لاپتا ہو جانے کا بیان“ کے تحت لکھتا ہے: جس کا شوہر بالکل لاپتا ہو گیا، معلوم نہیں مر گیا یا زندہ ہے تو وہ عورت اپنا دوسرا نکاح نہیں کر سکتی، بلکہ انتظار کرتی رہے کہ شاید آ جاوے، جب انتظار کرتے کرتے اتنی مدت گزر جاوے کہ شوہر کی عمر نوے برس کی ہو جاوے تو اب حکم لگا دیں گے کہ وہ مر گیا ہو گا، سو اگر وہ عورت ابھی جوان ہو اور نکاح کرنا چاہے تو شوہر کی عمر نوے برس کی ہونے کے بعد عدت پوری کر کے نکاح کر سکتی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس لاپتا مرد کے مرنے کا حکم کسی شرعی حاکم نے لگایا ہو“۔ (اصلی بہشتی زیور (30/4))
اور اس بہشتی زیور کے نیچے حاشیہ میں اس مسئلہ کا حوالہ فتاوی عالمگیری (915/2) اور ہدایہ(202/2) سے دیا گیا ہے۔ لیکن حنفی حضرات کا اپنے اس مسئلہ پر فتوی نہیں ہے، یہ اس مسئلہ میں امام مالک کے قول ہی پر فتوی دیتے ہیں۔ اصلی بہشتی زیور کے مذکورہ صفحے کے حاشیہ پر لکھا ہے:
”لیکن آج کل شدت ضرورت کی وجہ سے علماء نے امام مالک کے مذہب پر فتوی دے دیا ہے، ان کے نزدیک اتنی مدت شرط نہیں، اگر کسی کو ضرورت ہو تو علماء سے مفصل طور سے معلوم کر کے اس پر عمل کر سکتا ہے۔ نیز ایک رسالہ الحيلة الناجزة للحيلة العاجزة میں اس مسئلہ اور اس قسم کے دوسرے ضروری مسائل کو کہ جن میں امام مالک کے مذہب پر فتوی دینے کی گنجائش ہے، تفصیل سے لکھا گیا ہے اور علماء تھانہ بھون و دیوبند سہارنپور کے اس پر متفقہ دستخط ہیں۔“
امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب وہی ہے جو اوپر میں نے خلیفہ المسلمین عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور ایک روایت کے مطابق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر ائمہ محدثین و مجتہدین و تابعین عظام کا نقل کیا ہے۔
مولوی اشرف علی تھانوی کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ حنفی علماء نے اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ کے موقف کو ترک کر دیا ہے اور امام مالک کے موقف کو اختیار کیا ہے، اس بات پر ان کے دیوبند سہارنپور اور تھانہ بھون کے جید علماء کے دستخط ثبت ہیں۔ ان علماء کی تفصیل ”الحيلة الناجزة“ جو جدید طرز ”احکام طلاق و نظام شرعی عدالت“ کے نام سے الفیصل ناشران و تاجران کتب غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور سے طبع ہوئی ہے، اس کے صفحہ (22 تا 25) پر موجود ہے۔
مذکورہ بالا آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ دین محدثین اور فقہاء کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ جس عورت کا شوہر لاپتا ہو جائے تو اس کے یقینی طور پر لاپتا ہو جانے کے بعد، یا جب معاملہ عدالت کی طرف لایا جائے، حاکم وقت تک پہنچانے کے بعد عورت چار سال انتظار کرے، پھر چار ماہ دس دن کی عدت گزار کر اگر نیا نکاح کرانا چاہتی ہو تو کرا سکتی ہے اور یہی رائج ترین موقف ہے، جس کی پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تصدیق ہوتی ہے۔