جس عورت سے ہم بستری نہیں ہوئی (طلاق کی صورت میں ) اس پر کوئی عدت نہیں اور لونڈی بھی (عدت میں ) آزاد کی طرح ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا [الأحزاب: 49]
”اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں چھونے (یعنی مباشرت ) سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت نہیں جسے تم شمار کرو ۔“
کیونکہ کسی صحیح مرفوع حدیث سے ان دونوں کی عدت میں کوئی فرق ثابت نہیں اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی جس روایت میں یہ لفظ ہیں:
طلاق الأمة تطليقتان و عدتها حيضتان
”لونڈی کی طلاق دو طلاقیں ہے اور اس کی عدت دو حیض ہے۔“ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: إرواء الغليل: 2066 ، ضعيف ابن ماجة: 451 ، ابن ماجة: 2079 ، دارقطني: 38/4 ، بيهقي: 369/7 ، حافظ بوصيريؒ نے اس حديث كو ضعيف كها هے۔ مصباح الزجاجة: 139/2 ، اس كي سند ميں عطيه عوفي راوي ضعيف هے۔ المخروحين: 171/2 ، الحرح والتعديل: 382/6 ، الكاشف: 235/2 ، ميزان الاعتدال: 79/3 ، تقريب التهذيب: 24/2]
یہ اور اس معنی کی کوئی بھی حدیث مرفوعا صحیح ثابت نہیں لہذا دلائل کے عموم میں آزاد اور لونڈی دونوں یکساں طور پر شامل ہیں ۔
(ابن حزمؒ ) اسی کے قائل ہیں ۔
[المحلي: 230/10]
(امیر صنعانیؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[سبل السلام: 1514/3]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کو برحق سمجھتے ہیں۔
[الروضة الندية: 147/2]
تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا:
وتعتد الأمة حيضتين
”اور لونڈی دو حیض عدت گزارتی ہے۔ “
[صحيح: إرواء الغليل: 2067 ، دارقطني: 419 ، مسند شافعي: 1607 ، بيهقي: 425/7]