جسے قسم اٹھانے پر مجبور کیا جائے تو قسم اس پر لازم نہیں ہو گی اور اسے توڑنے سے وہ گناہگار بھی نہیں ہوگا
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ [النحل: 106]
”جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو مگر جو کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لیے بہت بڑا عذاب ہے ۔“
➋ حدیث نبوی ہے کہ :
رفع عن أمتى الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه
”میری امت سے خطا ، نسیان اور جس کام پر مجبور کیا گیا ہو اس کا گناہ مٹا دیا گیا ہے ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 82 ، ابن ماجة: 2045 ، كتاب الطلاق: باب طلاق المكره والناسي ، شرح معاني الآثار: 95/3 ، طبراني كبير: 133/11 ، دار قطنى: 170/4 ، حاكم: 198/2 ، بيهقي: 356/7]
➌ امام بخاریؒ نے یہ باب قائم کیا ہے
النية فى الأيمان
”قسموں میں نیت کا بیان“
اور اس کے تحت یہ حدیث نقل فرمائی ہے ۔
إنما الأعمال بالنيات
”عملوں کا دارو مدار صرف نیتوں پر ہے ۔“
[بخاري: 6689 ، كتاب الأيمان والنذور]
درج بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ قصدا اگر کسی کام پر قسم اٹھائی جائے تب ہی اسے پورا کرنا لازم ہو گا اور اسے توڑنے کی صورت میں کفارہ ادا کرنا پڑے گا بصورت دیگر ایسا کچھ ضروری نہیں ہے نیز فقہا نے بھی اس بات کو ترجیح دی ہے کہ قسم میں شرط ہے کہ انسان کو مجبور نہ کیا گیا ہو ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: فقه السنة: 80/3 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 2476/4 ، السيل الجرار: 6/4]