جسم سے جڑی جڑواں بہنوں کے نکاح کا شرعی حکم؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

دولڑکیاں جڑواں پیدا ہوئیں اور دونوں کا جسم ایک دوسرے سے ملا ہوا ہے، ایک قضائے حاجت کو جائے، تو دوسری کو بھی ساتھ جانا پڑتا ہے، اب وہ بالغ ہو چکی ہیں اور شادی کرنا چاہتی ہیں، تو کیا حکم ہے؟

جواب:

اگر دونوں لڑکیاں جدا جدا جسمانی شناخت رکھتی ہیں، تو انہیں آپریشن کے ذریعہ الگ الگ کیا جا سکتا ہے اور دونوں کا الگ الگ لڑکے سے نکاح کیا جائے گا۔ ورنہ دونوں کا اکھٹا نکاح نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اگر ایک ہی شخص کے ساتھ نکاح کیا جائے گا، تو دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا لازم آئے گا، جو کہ جائز نہیں۔
وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ
﴿النساء: 23﴾
اور تم دو بہنوں کو (ایک نکاح میں) جمع کرو، یہ بھی تم پر حرام کر دیا گیا ہے۔
اگر دونوں لڑکیوں کی الگ الگ جسمانی شناخت نہیں ہے یا شناخت ہے، مگر دونوں کو آپریشن کے ذریعہ الگ الگ نہیں کیا جا سکتا، تو آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک اس کی کوئی نظیر نہیں کہ دو جڑواں بہنیں عمر بلوغ کو پہنچ گئیں ہوں، لہذا یہ مسئلہ مفروضہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے