جریج راہب کا مستند واقعہ اور حضرت یوسفؑ کی اولاد کا بیان
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد ۲، صفحہ ۴۵۸

جریج راہب کا قصہ اور حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد کا تذکرہ

سوال (۱): جریج راہب کا قصہ

ایک شخص نے سوال کیا کہ:

"میں نے اپنے شہر کی مسجد میں ایک قصہ سنا تھا جس میں حضرت جریج کا ذکر تھا۔ آپ کی کتاب سے پہلے مجھے اس کی حقیقت معلوم نہ تھی۔ الحمدللہ، آپ کی کتاب سے مجھے ایک قصے کی وضاحت ملی۔ اب ایک نیا قصہ سننے کو ملا، جسے میں آپ سے معلوم کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ سے رابطہ بھی بحال ہو جائے۔ قصہ یہ ہے کہ ایک شخص جس کا نام ‘حضرت جریج’ تھا، نماز پڑھ رہے تھے۔ ان کی والدہ نے انہیں آواز دی، لیکن انہوں نے جواب نہ دیا۔ جب کئی بار آواز دینے پر بھی انہوں نے جواب نہ دیا تو ان کی ماں نے بد دعا کی کہ وہ بدنامی کا سامنا کرے۔ کچھ عرصہ بعد ایک عورت نے ان پر الزام لگایا کہ ان کا بچہ حضرت جریج سے ہے۔ حضرت جریج نے اللہ تعالیٰ سے توبہ کی اور اس بچے سے پوچھا کہ اس کا باپ کون ہے۔ وہ بچہ ایک چرواہے کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ وہی اس کا باپ ہے۔ اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ واقعہ سچا ہے یا جھوٹا، اسلام کے بعد کا ہے یا اس سے پہلے کا، اور اس کے راویوں کا کیا مقام ہے؟”

جواب (۱):

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ واقعہ درست اور صحیح سند سے ثابت ہے اور بنی اسرائیل کے دور کا ہے، اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس کی تمام روایات ثقہ اور قابل اعتماد راویوں سے مروی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

جریج ایک عبادت گزار راہب تھے جو اپنی عبادت گاہ (کوٹھڑی نما خانقاہ) میں عبادت کیا کرتے تھے۔ ایک دن ان کی والدہ آئیں اور پکارا:

"اے جریج! میں تیری ماں ہوں، مجھ سے بات کر۔”

جریج نماز میں مشغول تھے، انہوں نے دل میں کہا: "اے میرے رب! میری ماں ہے یا میری نماز؟” پھر وہ نماز پڑھتے رہے اور ماں واپس چلی گئیں۔ اگلے دن وہ دوبارہ آئیں اور پھر یہی پکارا۔ جریج نے پھر وہی سوال دل میں کیا اور نماز جاری رکھی۔ تیسری بار جب ایسا ہوا تو ماں نے بددعا دی:

"اے اللہ! یہ میرا بیٹا ہے، میں اس سے بات کرتی ہوں اور یہ مجھ سے بات نہیں کرتا۔ اے اللہ! اسے اس کی موت سے پہلے بدکار عورتوں کا چہرہ دکھا دے۔”

راوی کہتے ہیں کہ اگر وہ جریج کے فتنے میں مبتلا ہونے کی دعا کرتیں تو وہ ضرور مبتلا ہوجاتے۔

◈ ایک چرواہا قریبی گاؤں میں رہتا تھا۔
◈ گاؤں کی ایک عورت نے اس سے زنا کیا اور اس سے حمل ٹھہر گیا۔
◈ جب بچہ پیدا ہوا تو لوگوں نے پوچھا: "یہ بچہ کس کا ہے؟”
◈ عورت نے کہا: "یہ اس عبادت گاہ والے جریج کا بچہ ہے۔”

اس پر لوگ کدالیں اور پھاوڑے لے کر آئے اور جریج کی عبادت گاہ کو منہدم کرنے لگے۔ جریج نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے کوئی بات نہ کی۔ جب عبادت گاہ گرنے لگی تو نیچے اترے اور پوچھا کہ کیا ہوا؟ لوگوں نے کہا: "اس عورت سے پوچھو۔”

جریج مسکرائے اور بچے کے سر پر ہاتھ پھیر کر پوچھا:

"تیرا باپ کون ہے؟”
بچے نے کہا: "بھیڑوں کا چرواہا”۔

لوگ یہ سن کر حیران رہ گئے اور کہا: "ہم تمہارے لیے سونے چاندی کا عبادت خانہ بنائیں گے۔”

جریج نے فرمایا: "نہیں، جیسے پہلے مٹی کا تھا ویسا ہی بنادو۔” پھر وہ دوبارہ اپنی عبادت میں مشغول ہوگئے۔

صحیح بخاری: ۳۴۳۶
صحیح مسلم: ۲۵۵۰
ترقیم دارالسلام: ۶۵۰۸ (واللفظ لہ)

سوال (۲): حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد

سائل کا دوسرا سوال تھا کہ:

"میرے چچا کے بیٹے نے اپنی بیٹی کا نام ‘مشائم’ رکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی دو بیٹیاں تھیں، جن کے نام ‘مشائم’ اور ‘عمرائم’ تھے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی حضرت یوسف علیہ السلام کی دو بیٹیاں تھیں؟ اور یہ نام عربی ہیں یا عبرانی؟ کیونکہ کسی نے مجھے کہا کہ ان کے دو بیٹے تھے۔”

جواب (۲):

حضرت یوسف علیہ السلام کے دو بیٹوں کے نام:

➊ افراہیم
➋ منشا

یہ دونوں نام بغیر کسی سند کے تاریخ ابن جریر الطبری (جلد 1، صفحہ 364) میں مذکور ہیں۔

جہاں تک حضرت یوسف علیہ السلام کی دو بیٹیوں کے نام ‘عمرائم’ اور ‘مشائم’ کا تعلق ہے، تو ایسی کوئی مستند روایت موجود نہیں ہے۔ نہ ہی کہیں ان کی بیٹیوں کے وجود کا ذکر ملتا ہے۔

لہٰذا اس معاملے میں کوئی معتبر دلیل نہ ہونے کی وجہ سے سکوت اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1