جرح و تعدیل میں امام مکحول دمشقی: “لیس بالمتین” روایت کی حقیقت اور تحقیق
تحریر: ارشاد الحق اثری

امام مکحول دمشقی پر امام ابو حاتم رحمہ اللہ کی جرح ثابت نہیں

امام مکحول دمشقی دمشق کے کبار فقہاء و محدثین میں شمار ہوتے ہیں۔

امام مکحول دمشقی رحمہ اللہ کی توثیق کے بارے میں تفصیلی بحث کے لئے دیکھئے مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی کتاب ’’توضیح الکلام فی وجوب القرأة خلف الامام‘‘ (ج اص 330، 334) یہاں یہ بھی یادر ہے کہ مکول کا مدلس ہونا ثابت نہیں ہے دیکھئے میری کتاب ’’الفتح المبین في تحقيق طبقات المدلسین‘‘ (۳/۱۰۸) و توضیح الکلام (ج 1 ص 334–338) مکحول کو حافظ ابن حبان اور حافظ ذہبی کے علاوہ کسی نے مدلس قرار نہیں دیا ۔ بعد والے بعض لوگوں نے انہی کی اتباع کی ہے۔ حافظ ابن حبان اور حافظ ذہبی ارسال کو بھی تدلیس قرار دیتے ہیں دیکھئے کتاب الثقات لابن حبان (۹۸/۶) والموقظة للذھبی (ص ۴۷) از بیر علی زئی

امام ابو حاتم فرماتے ہیں ’’ما أعلم بالشام أفقه من مكحول‘‘ مجھے معلوم نہیں کہ شام میں مکحول سے زیادہ بھی کوئی فقیہ ہے۔ امام زہری فرماتے ہیں: علماء چار ہیں ان میں ایک مکحول ہیں۔ بلکہ سعید بن عبدالعزیز نے تو فرمایا ہے کہ وہ امام زہری رحمہ اللہ سے بھی زیادہ فقیہ تھے۔ ابن یونس (مصری) فرماتے ہیں ۔ ’’اتفقوا على توثیقہ‘‘ کہ اس کے ثقہ ہونے پر اتفاق ہے ۔ امام اقبالی ، ابن خراش نے انہیں ثقہ و صدوق کہا ہے۔ حافظ ذہبی نے انہیں عالم أهل الشام الفقيه الحافظ کے الفاظ سے یاد کیا ہے ۔ اس حوالے سے مزید تفصیل ، تہذیب التہذیب ( ج 10 ص 292، 293)، السیر ( ج 5 ص 159) تذکرة الحفاظ ( ج اص (108)، البدایہ ( ج و ص 305)، تہذیب الاسماء ( ج 2 ص 114)، وغیرہ کتب جرح و تعدیل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کی اس توثیق کے برعکس علامہ محمد طاہر بینی رحمہ اللہ نے قانون الموضوعات ص ۲۹۸ میں امام ابو حاتم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے امام مکحول کے بارے میں کہا ہے کہ وہ لیس ہالمتین‘ ہیں ۔ حالانکہ یہ قول نہ امام ابو حاتم کے فرزندار جمند کی کتاب الجرح والتعدیل میں اور نہ ہی جرح و تعدیل کی متداول کتابوں میں اس کا کہیں ذکر ہے۔

نقل جرح میں علامہ پٹنی کا وہم :

علامہ طاہر پٹنی نے یہ قول در اصل علامہ سیوطی کی الل   الی المصنوعہ کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ علامہ سیوطی کے حوالے سے یہ نقل سراسر و ہم پر مبنی ہے ۔ علامہ سیوطی نے تو مکحول کی توثیق کی ہے اور یہ جرح امام مکحول کے بارے میں نہیں بلکہ بر دین سنان کے بارے میں نقل ہے۔ چنانچہ موصوف ’’من ولدله مولود فسماه محمداً تبركابه‘‘ الحديث بواسطة حماد بن سلمة عن برد بن سنان عن مكحول عن أبي أمامة نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔

’’مکحول من علماء التابعين وفقهائهم وثقه غير واحد واحتج به مسلم في صحيحه و برد روى له البخاري في الأدب المفرد والأربعة ووثقه ابن معين والنسائي وضعفه ابن المديني وقال أبو حاتم ليس بالمتين ، وقال مرة كان صدوقاً قدرياً وقال أبو زرعة: لا بأس به‘‘ (الآلى ج اص 106)

یعنی مکحول کا شمار علمائے تابعین اور ان کے فقہاء میں ہوتا ہے۔ بہت سے حضرات نے اسے ثقہ کہا ہے۔

جمہور علماء نے مکمل کو ثقہ قراردیا ہے دیکھئے میری کتاب ’’الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام في الجهریہ‘‘ (ص 38–40) محدثین کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی اسے ثقہ ہی قرار دیا ہے۔ شمس الدین السرخسی (حنفی) نے کہا: ’’فمكحول فقیه ثقة‘‘ پس مکحول فقیہ ثقہ ہے (المبسوط ج 13 ص 56) یہی عبارت ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے بغیر کسی رد سے نقل کی ہے بلکہ اس سے استدلال کیا ہے (اعلاء السنن ۳۴۵/۱۴ ۴۷۴۴) مکحول کی سند والی ایک روایت کو نیموی حنفی نے ’’وإسناده صحیح‘‘ کہا ہے (آثار السنن ح 238) / زع

اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں اس سے احتجاج کیا ہے۔ اور برد (بن سنان) سے امام بخاری نے الادب المفرد میں اور اصحاب السفن الاربعہ نے روایت لی ہے۔ امام ابن معین ، امام نسائی نے اسے ثقہ کہا ہے اور امام علی بن مدینی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ اور امام ابو حاتم نے کہا ہے کہ وہ ” ليس بالمتین “ ہے اور ایک بارا سے صدوق قدري کہا ہے اور امام ابوزرعہ نے لاباس بہ کہا ہے۔ یہ ہے علامہ سیوطی کا کلام جس کے اختصار میں یا تصرف نظر کے نتیجہ میں علامہ فنی (پانی) سے وہم ہوا کہ ’’ليس بالمتين‘‘ کی نسبت امام مکحول کے بارے میں کردی، حالانکہ یہ جرح برد بن سنان کے بارے میں ہے، اور امام ابو حاتم کی برد بن سنان کے بارے میں یہ جرح التھذیب ( ج اص 429 ) اور المیز ان ( ج اص 303 ) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی سے امام بخاری نے الادب المفرد میں اور اصحاب سنن اربعہ نے روایت لی ہے۔

علامہ سیوطی نے یہی روایت النکت البدیعات (ص 312، 311) میں نقل کی اور مکحول ، برد بن سنان کا ذکر کرتے ہوئے اس کے راویوں کو ثقہ اور الآلی میں اس کی سند کو حسن کہا۔ اور علامہ شوکانی نے بھی ان کی اتباع میں اسنادہ حسن کہہ دیا۔ (الفوائد ص 471) بلکہ علامہ فتنی نے بھی علامہ سیوطی کے حوالے سے ہی رجــالــه كلهم ثقات لکھا۔ (تذکرۃ الموضوعات ص 89) حالانکہ اس روایت کا مدار حامد بن حماد العسکری پر ہے ۔ علامہ ذہبی نے اس (روایت) کے موضوع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جس کی تفصیل تنزیہ لشریعہ (ج اص 191) اور السلسلۃ الضعیفۃ (رقم 17) میں دیکھی جا سکتی ہے۔

علامہ البانی کا وہم :

مگر یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علامہ البانی سے بھی الضعیفۃ میں علامہ سیوطی کا کلام نقل کرتے ہوئے وہم ہوا ہے۔ چنانچہ علامہ سیوطی نے برد بن سنان کے بارے میں جو الفاظ اللہ لی المصنوعہ میں نقل کئے ہیں۔اس کا انتساب بھی مکحول ہی کی طرف کر دیا۔

شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کا ذکر خیر میری کتاب ’’انوار السبیل فی میزان الجرح والتعدیل‘‘ میں ہے (ص۲۰۰) انہیں ہمارے تمام استادوں نے ثقہ قرار دیا ہے۔ شیخ بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ثـقـة مــحــدث ، رجل طيب عنده علم كثير في تصحيح الحدیث و تضعيفه وله أوهام و أخطاء‘‘ یعنی وہ ثقہ محدث اور اچھے انسان ہیں۔ ان کے پاس حدیث کی تصیح و تضعیف میں بہت علم ہے اور ان کے اوہام واخطاء ( بھی ) ہیں۔
امام محدث فقیہ ابوالسلام محمد صدیق بن عبد العزیز سرگودھوی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’نعتمد على كتبه ، إلا له بعض المسائل ، لا نعتمد عليها التي تفرد بها‘‘ ہم ان کی کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں مگر ان کے بعض مسائل ایسے ہیں جن میں وہ منفرد ہیں، ہم ان پر اعتماد نہیں کرتے ۔ (انوار السبیل ص 200 حرف النون) / زع

علامہ سیوطی کے الفاظ تو آپ پڑھ آئے ہیں۔ علامہ البانی اسے یوں ذکر کرتے ہیں۔

’’مكحول من علماء التابعين وفقهائهم وثقه غير واحد واحتج به مسلم في صحيحه ، وروى له البخاري في الأدب المفرد والأربعة، وثقه ابن معين والنسائي وضعفه ابن المديني وقال أبو حاتم ليس بالمتين وقال مرة كان صدوقا وقال أبو زرعة: لا بأس به والله أعلم‘‘ (الضعیفہ رقم 171)

غور فر مایا آپ نے کہ علامہ سیوطی کی عبارت میں جو ’’و برد روی له البخاری‘‘ تھا اس میں سے ’’برد‘‘ کا نام ساقط ہو گیا اور یوں یہ سارا کلام امام مکحول سے متعلق ہو گیا۔ اور یہی کچھ ’’معجم أسامي الرواة الذين ترجم لهم العلامة محمد ناصر الدين الألباني جرحاً و تعدیلا‘‘ (ج 4 ص 185) میں ان کے عقیدت مندوں نے بلا تامل نقل کر دیا۔ سبحان الله من لا يسهو ولا ينسى۔

اس وضاحت سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ امام ابو حاتم نے قطعاً امام مکحول کو ’’ليس بالمتين‘‘ نہیں کہا۔ بلکہ وہ تو فرماتے ہیں کہ شام میں ان سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں ۔ دیوبندی مکتب فکر کے وکیل (جناب) سرفراز خان صفدر صاحب نے احسن الکلام میں ’’لیس بالمتین‘‘ کی جرح کا سہارا لے کر جو بتکرار امام کھول پر کلام کیا ہے۔ حقیقت سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ وہ اگر اس حقیقت سے آگاہ ہوتے تو شاید اسے نقل نہ کرتے اور اس حوالے سے انہیں مورد الزام نہ ٹھہراتے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے