جرابوں پر مسح کی مختلف صورتیں اور ان کا تفصیلی جائزہ
سوال:
جب کسی شخص کو جرابوں پر مسح کے آغاز اور اس کے وقت کے بارے میں شک ہو جائے تو ایسی صورت میں وہ کیا کرے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کسی شخص کو اس بات میں شک ہو جائے کہ اس نے جرابوں پر مسح کس وقت شروع کیا تھا، مثلاً اسے معلوم نہ ہو کہ مسح نمازِ ظہر کے وقت شروع کیا تھا یا نمازِ عصر کے وقت، تو ایسے حالات میں اس پر لازم ہے کہ وہ یقین کو بنیاد بنائے۔
✿ چونکہ اصل یہ ہے کہ مسح نہیں ہوا تھا، اس لیے وہ مسح کی ابتدا کو نمازِ عصر سے شمار کرے گا۔
✿ فقہی قاعدہ یہی ہے کہ "ہر چیز کو اس کی اصل حالت پر باقی رکھا جائے گا”، اور یہاں اصل حالت عدمِ مسح (یعنی مسح نہ ہونا) ہے۔
قاعدے کی دلیل:
یہ قاعدہ درج ذیل حدیث سے ثابت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ایسے شخص کی کیفیت بیان کی گئی، جسے دورانِ نماز یہ خیال آتا ہے کہ شاید اس نے کچھ محسوس کیا ہے (یعنی وضو ٹوٹ گیا ہے)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لَا يَنْصَرِفْ حَتَّی يَسْمَعَ صَوْتًا اَوْ يَجِدَ رِيْحًا»
(صحیح البخاری، الوضوء باب لا يتوضا من الشك حتی يستيقن، حدیث: ۱۳۷، صحیح مسلم، الحیض، باب الدلیل علی ان من تيقن الطهارة ثم شك فی الحدث فله ان يصلی بطهارته تلك، حدیث: ۳۶۱)
’’وہ اس وقت تک نماز نہ چھوڑے جب تک آواز نہ سن لے یا بو محسوس نہ کرلے۔‘‘
یعنی جب تک یقینی علامت نہ پائی جائے، محض شک کی بنیاد پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب