جدید ذرائع ابلاغ اور عورت کی تذلیل
جدید ذرائع ابلاغ نے عورت کی تذلیل کو ایک عام روایت بنا دیا ہے، یہاں تک کہ بیشتر خواتین کو اپنی بے قدری کا احساس تک نہیں ہوتا۔ جب کوئی چیز کلچر کا حصہ بن جاتی ہے تو لوگ اس پر سوال اٹھانے کے بجائے اسے فطری مان لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال غلامی کی تاریخ ہے، جہاں غلامی اتنی عام ہو چکی تھی کہ غلام خود اسے اپنی قسمت سمجھنے لگے تھے۔
ذرائع ابلاغ اور عورت کی آزادی کا فریب
آج کے میڈیا نے عورت کی تذلیل کو اس طرح رنگین بنا دیا ہے کہ خواتین اسے جشن کے طور پر مناتی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ میڈیا انہیں "آزاد” کر رہا ہے اور ان کی عزت افزائی کر رہا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ میڈیا عورت کی تذلیل کا کلچر بناتا ہے، پھر اسی کلچر کے نتیجے میں جرائم کو فروغ دیتا ہے اور جب خواتین ظلم کا شکار ہوتی ہیں تو انہی خبروں کو بیچ کر فائدہ اٹھاتا ہے۔
مذاہب میں عورت کا مقام
◄ ہندو مت میں عورت کو دیویوں (دُرگا، لکشمی، سرسوتی) کا درجہ دیا گیا ہے۔
◄ عیسائیت میں حضرت مریمؑ کو انتہائی عزت حاصل ہے۔
◄ اسلام میں عورت رحمت کی علامت ہے۔ حضرت عائشہؓ کا علم فقہ کا ایک بڑا حصہ تشکیل دیتا ہے، جبکہ حضرت فاطمہؓ کو کئی حیثیتوں میں قابلِ عزت مقام حاصل ہے۔
عورت کے عظیم کردار
عورت ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کے طور پر ہمیشہ عزت و تکریم کی مستحق رہی ہے۔ شاعری سے لے کر تاریخ تک، عورت ہمیشہ ایک باوقار اور محترم حیثیت میں نمایاں رہی ہے۔ لیکن مغربی نظریات اور جدید میڈیا نے اس عظمت کو نظر انداز کر دیا ہے۔
عورت کا محدود اور توہین آمیز تصور
آج کی فلموں، ڈراموں اور اشتہارات میں عورت کو صرف ایک ماڈل، گلوکارہ، اداکارہ یا ٹی وی پریزنٹر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اور وہ بھی ایک Sex Symbol کے طور پر۔ سرمایہ دارانہ نظام نے عورت کو ایک "پراڈکٹ” بنا دیا ہے جس کا کام صرف مصنوعات فروخت کرنا اور سرمایہ داروں کی جیبیں بھرنا ہے۔
عورت کی توہین پر مبنی پانچ امیجز
میڈیا میں عورت کے چند توہین آمیز امیجز یہ ہیں:
◄ دیکھنے کے قابل ("Watch us if you can”)
◄ چاہنے کے قابل ("Desire us if you can”)
◄ چھونے کے قابل ("Touch us if you can”)
◄ اور بھی زیادہ توہین آمیز مراحل جن کا بیان ممکن نہیں۔
یہ تمام مراحل معاشرے میں خواتین کے خلاف جرائم کو جنم دیتے ہیں، کیونکہ لوگ جب فلموں اور ڈراموں میں ایسی چیزیں دیکھتے ہیں تو وہ اپنے ارد گرد موجود خواتین پر ان خیالات کا اطلاق کرنے لگتے ہیں۔
مغرب زدگی اور عورت کی تذلیل
یہ تذلیل صرف فلموں اور ماڈلنگ تک محدود نہیں رہی بلکہ اسے مزید نچلی سطح پر لے جایا گیا۔ قندیل بلوچ کی مثال اس کی واضح نشانی ہے، جس کی شہرت صرف جسم کی نمائش پر مبنی تھی۔ کچھ لوگ تو یہ تک کہنے لگے کہ عورت کی جنسیت کی تشہیر ایک "قومی فریضہ” ہے۔
مردوں کی خواہش کے مطابق عورت کی تشکیل
مشہور مغربی ادیب ڈی ایچ لارنس نے لکھا کہ مرد ہمیشہ عورت کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ عورت قربانیاں دینے والی ماں بنے تو وہ ایسی بن جاتی ہے، اگر وہ چاہتے ہیں کہ عورت تفریح کا ذریعہ بنے تو وہ خود کو اسی روپ میں ڈھال لیتی ہے۔
جنسی آزادی یا جنسی غلامی؟
آج کی عورت جسے "جنسی آزادی” سمجھ رہی ہے، وہ درحقیقت جنسی غلامی ہے۔ سرمایہ دار اور بدمعاش مرد عورت کو محض ایک چیز میں بدل رہے ہیں جو ان کی خواہشات کی تسکین کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
حقیقی آزادی کہاں ہے؟
عورت کی حقیقی آزادی وہاں ہے جہاں وہ تاریخ کا ایک عظیم کردار بن سکتی ہے، جہاں اسے ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کے طور پر عزت دی جاتی ہے، جہاں وہ علم، تہذیب اور تخلیق کا محور بنتی ہے۔ وہ دنیا جہاں عورت کو صرف Sex Symbol بنا دیا جائے، دراصل عورت کے وجود کی سب سے بڑی تذلیل ہے۔