مغربی تہذیب کا اثر اور ہماری بے بسی
پہلے ہم کہتے تھے کہ مغرب کی تہذیب خود اپنے انجام کو پہنچے گی، لیکن اب وہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے کر تباہی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف، ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ان کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ تہذیبی موت ہمارے دروازوں پر مسلسل دستک دے رہی ہے، اور ہم بے حس بیٹھے ہیں۔
کلچرل گلوبلائزیشن کا خطرہ
آج کلچرل گلوبلائزیشن کی رفتار اتنی تیز ہوچکی ہے کہ ایسے لگتا ہے جیسے آنے والے دنوں میں غیر اخلاقی رویے اور غیر انسانی رجحانات ہماری گلیوں میں معمول بن جائیں گے۔ ان رویوں کو قبول نہ کرنے پر ہمیں اور ہماری اقدار کو غیر مہذب کہا جائے گا، اور یہ زبردستی ہماری تہذیب کے آخری باقیات بھی چھیننے کی کوشش کریں گے۔
باؤلے پن کی یلغار
دنیا بھر میں ایک ایسی تہذیبی یلغار شروع ہوچکی ہے جو انسانیت کے بنیادی اخلاقی ڈھانچے کو تہس نہس کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ لبرل ازم، سیکولرازم، اور جدیدیت کے نام پر راستہ ہموار کیا جا رہا ہے تاکہ یہ فساد ہر جگہ پہنچ سکے۔
یک طرفہ تہذیبی پیکیج
یہ تہذیب ہمیں ایک مکمل پیکیج کے طور پر دی جا رہی ہے، جس میں سے کچھ لینے یا کچھ چھوڑنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں ہے۔ جو اس کو مسترد کرے گا، اسے قدامت پسندی اور شدت پسندی کے طعنے دیے جائیں گے۔
نئی تہذیب کے علمبردار
آج کے نام نہاد دانشور، ادیب، اور میڈیا پرسنز ایک نئی، تاریک تہذیب کے حامی بن چکے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو پہلے سرخ انقلاب کے گیت گاتے تھے اور اب اس کالی تہذیب کے بگل بجا رہے ہیں۔
سید قطب کی بصیرت
’’دن کے وقت مشین، رات کے وقت حیوان، اور وہ بھی ایسا ویسا نہیں!‘‘
یہ جملہ جدید انسان کی تہذیبی پستی کی عکاسی کرتا ہے، جہاں اخلاقیات اور روحانیت کا وجود ختم ہو چکا ہے۔
نئی سماجی جنگ اور ہماری غفلت
این جی اوز اور جدید تعلیمی نظام پہلے ہی ایسے اقدامات کرچکے ہیں جو اخلاقی اور سماجی اقدار کو تباہ کرنے کی بنیاد بنیں گے۔ دوسری طرف، ہماری دینی اور اخلاقی قیادت اس طوفان کے سامنے بے بس اور خاموش نظر آتی ہے۔
خواتین کی عزت اور حیا کا زوال
ہماری بیٹیاں اور بہنیں، جو کبھی حیا کا پیکر تھیں، آج لباس اور روایات کے بوجھ سے آزاد ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ آزادی دھیرے دھیرے ہم پر مسلط کی جا رہی ہے، تاکہ ہمیں محسوس بھی نہ ہو کہ ہماری نسلوں سے ان کی تہذیبی شناخت چھینی جا رہی ہے۔
میڈیا، تعلیم، اور معاشرتی بگاڑ
جدید تعلیم اور میڈیا نے مل کر ہماری اقدار کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ ویلنٹائن ڈے، کنڈوم کلچر، سیکس ایجوکیشن، اور دیگر مغربی رجحانات کو ہمارے معاشرے میں عام کیا جا رہا ہے تاکہ ہم ان تمام غیر اخلاقی رویوں کو ہضم کر سکیں۔
خاموشی کا وقت ختم ہو چکا
یہ وقت خاموشی کا نہیں، بلکہ عمل کا ہے۔ ہماری تہذیب اور اسلامی اقدار کا دفاع ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم آج نہ بولے تو کل ہماری نسلیں اخلاقی بگاڑ اور مغربی تسلط کے مکمل تابع ہو جائیں گی۔