جدیدیت، معرفتِ ذات اور علامہ اقبال کا فکری سوال

علامہ اقبال کا سوال: چیستی عالم، آدم، و حق

علامہ اقبال نے ایک بنیادی سوال اٹھایا تھا:

"چیست عالم، چیست آدم، چیست حق”

یہ سوال انسانی تاریخ اور تہذیبوں کے ایک مشترکہ پہلو پر غور کرتا ہے: تصورِ خدا، تصورِ انسان، اور تصورِ کائنات۔ علامہ اقبال کے مطابق، ان سوالات کے جواب کا واحد راستہ پیغامِ خداوندی تھا۔ لیکن جدید مغربی تہذیب نے اس راستے سے انحراف کرتے ہوئے ایک نیا زاویہ اختیار کیا۔

جدیدیت کا اثر

  • جدیدیت کے ساتھ تصورِ خدا، انسان، اور کائنات بدل گئے۔
  • اس تبدیلی کے نتیجے میں انسان، معاشرہ، اور کائنات کے معنی بے معنی ہو گئے۔
  • حیات اور کائنات کی معنویت ختم ہو کر بے مقصدیت میں بدل گئی۔

اقبال کے مطابق، مغرب کی نئی فکری تحریک نے "محفل نو” کی ظاہر پرستی کو فروغ دیا۔ "چمن ہست و بود” یعنی زندگی کی حقیقت ایک نئی ہوا کی زد میں آ گئی۔ یہ تبدیلی علامہ اقبال کے نزدیک انسانی فکر پر سب سے بڑا اثر ڈالنے والا واقعہ تھی۔

جدیدیت کا عالم اسلام پر اثر

  • یہ فکری انقلاب مغرب سے نکل کر باقی دنیا اور عالم اسلام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے آیا۔
  • روایتی تہذیبوں نے بھی اس نئی آگ کے اثرات محسوس کیے۔
  • امتِ مسلمہ کے افکار اور سماجی رویے بھی بدل گئے۔
  • مغرب کے "مئے” (شراب) نے دل کے ہنگاموں کو خاموش کر دیا۔

ڈاکٹر سہیل عمر کی یہ تحریر علامہ اقبال کے فکری سوالات پر روشنی ڈالتی ہے، خاص طور پر تصورِ خدا اور تصورِ انسان میں در آنے والے فساد کا تجزیہ کرتی ہے۔

عرفانِ ذات: نفس کی معرفت

"اَعْرِفْ نَفسَکَ بِنَفْسِکَ” یعنی "اپنے نفس کو پہچانو” کا جملہ اکثر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کے حقیقی مفہوم سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔

  • یہ جملہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ حقیقی معرفت انسان کو اپنی ذات میں ہی مل سکتی ہے، نہ کہ ظاہری تعلیمات سے۔
  • افلاطون کے مطابق، انسان کے اندر پہلے سے ہی ہر چیز کا علم موجود ہوتا ہے، جو تجربات اور مشاہدات کے ذریعے بیدار کیا جا سکتا ہے۔

نفس کی اہمیت

  • حقیقی علم ظاہری ذرائع سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اندرونی ادراک سے پیدا ہوتا ہے۔
  • ہندوستانی فلسفہ کہتا ہے کہ حقیقی رہنما (شیخ) انسان کی اپنی ذات میں موجود ہوتا ہے۔
  • معرفت کا راستہ انسان کی ذات اور قلب سے ہو کر گزرتا ہے۔

عالم اکبر اور عالم اصغر

ابن سینا فرماتے ہیں:

"وتحسب انک جرم صغیر وفیک انطوی العالم الاکبر”

"تم خود کو ایک چھوٹا سا وجود سمجھتے ہو، حالانکہ تمہارے اندر پوری کائنات سمائی ہوئی ہے۔”

  • عالم اکبر (کائنات) اور عالم اصغر (انسان) ایک دوسرے کے مثل ہیں۔
  • انسان اگر اپنی ذات کو پہچان لے، تو وہ کائنات کی تمام حقیقتوں کو بھی جان سکتا ہے۔

نفس اور روح کی معرفت

حقیقی معرفت عقلِ جزوی کے ذریعے ممکن نہیں، بلکہ نفس، روح، اور وجود کلی کے ذریعے ممکن ہے۔

وجود کی گہرائیوں میں داخل ہو کر انسان اپنے مرکز تک پہنچتا ہے، جہاں سب حقیقتیں واضح ہو جاتی ہیں۔

خود شناسی سے خدا شناسی

حدیث شریف:

"مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّْہُ”

"جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔”

جب انسان اپنی ذات کو پہچان لیتا ہے، تو اسے اپنے رب کی معرفت نصیب ہوتی ہے۔ یہ معرفت تمام چیزوں کو رب کے ساتھ جوڑنے کا شعور عطا کرتی ہے۔

نتیجہ

معرفتِ ذات، کائنات، اور خدا کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ جدیدیت کے فکری انقلاب نے انسان کو اپنی ذات اور خدا سے دور کر دیا، جبکہ حقیقی معرفت کا راستہ ہمیشہ اندرونی شعور اور قلبی معرفت سے ہو کر گزرتا ہے۔ علامہ اقبال کا یہ سوال آج بھی موجودہ انسانی فکر کے لیے ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1