جب لونڈی آزاد ہو جائے تو وہ اپنے معاملے کی خود مالک ہو گی
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جب لونڈی آزاد ہو جائے تو وہ اپنے معاملے کی خود مالک ہو گی اور اسے اس کے خاوند کے بارے میں اختیار دیا جائے گا
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
ان بريرة خيرها النبى صلى الله عليه وسلم و كان زوجها عبدا
”بے شک بریره کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا اور اس کا خاوند غلام تھا۔“
[مسلم: 1504 ، كتاب العتق: باب إنما الولاء لمن أعتق ، ابو داود: 2234 ، ابن ماجة: 2076 ، نسائي: 162/6]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بریرہ کا شوہر ایک حبشی غلام تھا اس کا نام مغیث تھا وہ بنی فلاں کا غلام تھا۔ جیسے وہ منظر اب بھی میری آنکھوں میں ہے کہ وہ مدینہ کی گلیوں میں بریرہ کے پیچھے پیچھے (روتا) پھر رہا ہے۔
[بخاري: 5282 – 5281 ، كتاب الطلاق: باب خيار الأمة تحت العبد]
جس روایت میں ہے کہ بریرہ کا شوہر آزاد تھا۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 1956 ، ابو داود: 2235]
وہ منقطع ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول (کہ وہ غلام تھا ) زیادہ صحیح ہے جیسا کہ امام بخاریؒ نے یہ وضاحت فرمائی ہے۔
[بخاري: 6754]
معلوم ہوا کہ آزاد ہونے کے بعد عورت ، جبکہ اس کا خاوند غلام ہو ، کو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اس کی زوجیت میں رہے اور چاہے تو علیحدہ ہو جائے۔ اس پر اجماع ہے۔
[فتح البارى: 407/9 ، نقله الحافظ عن ابن بطال]
◈ اس صورت میں اختلاف ہے کہ جب شوہر آزاد ہو۔
(جمہور ) ایسی صورت میں عورت کو کوئی اختیار نہیں۔ کیونکہ اختیار کی علت غلام ہونے کی وجہ سے عدم کفائت تھی جو کہ اب موجود نہیں ۔
(احناف) اسے ابھی بھی اختیار حاصل ہے۔
(ابن قیمؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[الأم: 122/5 ، المبسوط: 314/5 ، المغنى: 453/9 ، نيل الأوطار: 235/4 ، زاد المعاد: 168/5]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے جیسا کہ ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول مروی ہے کہ :
ولو كان حرالم يخيرها
”اگر وہ آزاد ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے (یعنی بریرہ کو) اختیار نہ دیتے ۔“
[مسلم: 1504 ، ابو داود: 3929 ، ترمذي: 2124 ، نسائي: 305/7 ، أحمد: 33/6]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے