جب بائع اور مشتری کے مابین سودے کے متعلق اختلاف ہو جائے تو بائع کی بات تسلیم کی جائے گی
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جب بائع اور مشتری کے مابین سودے کے متعلق اختلاف ہو جائے تو بائع کی بات تسلیم کی جائے گی
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا اختلف البيعان وليس بينهما بينة فالقول ما يقول صاحب السلعة أو يترادان
”جب دو بیع کرنے والوں کے درمیان اختلاف ہو جائے اور ان کے درمیان کوئی دلیل بھی نہ ہو تو مال کے مالک (یعنی بائع ) کی بات کو قبول کیا جائے گا یا وہ دونوں (اس سودے کو ) رد کر دیں گے ۔“
سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ ”فروخت کرنے والے اور خریدنے والے کے درمیان اختلاف ظاہر ہو:
والمبيع قائم بعينه
”اور فروخت کردہ چیز اسی حالت میں ہو ۔ “
”اور ان دونوں کے پاس دلیل بھی نہ ہو تو بات فروخت کرنے والے کی معتبر ہو گی یا دونوں بیع کو فسخ کر دیں گے“ ۔
اور سنن دار قطنی کی روایت میں ہے:
إذا اختلف البيـعـان والبيع مستهلك فالقول قول البائع
”جب دو سودا کرنے والوں کے درمیان اختلاف ہو جائے اور سودا ہلاک ہو چکا ہو تو بائع کی بات ہی معتبر ہو گی ۔“
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ابو عبیدہ فرماتے ہیں کہ ان کے پاس دو آدمی آئے جنہوں نے ایک دوسرے سے کسی سودے کی بیع کی تھی۔ اس نے کہا میں نے اس قیمت سے خریدا ہے اور اس نے کہا کہ میں نے اس قیمت سے فروخت کیا ہے۔ تو ابو عبیدہ نے کہا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بھی ایسا معاملہ لایا گیا تھا:
فأمر بالبائع أن يستحلف ثم يخير المبتاع إن شاء أخذ وإن شاء ترك
”انہوں نے بائع کے متعلق حکم دیا کہ اس سے قسم لی جائے پھر خریدار کو اختیار دیا جائے اگر چاہے تو (سودا) قائم رکھے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2997 ، صحيح ابن ماجة: 1779 ، ابو داود: 3511 ، كتاب البيوع: باب إذا اختلف البيعان والمبيع قائم ، نسائي: 302/7 ، ابن ماجة: 2186 ، دارقطني: 20/3 ، حاكم: 45/2 ، بيهقي: 332/5 ، الصحيحة: 798 ، ارواء الغليل: 1322 – 1323]
جس روایت میں ہے:
والبيع مستهلك
”امام ابن عبد البرؒ نے اسے منقطع قرار دیا ہے اور امام ابن حزمؒ نے بھی اسے منقطع کہا ہے اور امام صنعانیؒ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ “
[نيل الأوطار: 607/3 ، معالم السنن: 151/3 ، سبل السلام: 1045/3]
گذشتہ احادیث سے ثابت ہوا کہ جب بھی دو باہم بیع کرنے والے آپس میں اختلاف کریں تو بائع کی بات (اس کی قسم کے ساتھ ) معتبر سمجھی جائے گی (جیسا کہ ابوعبیدہ کی حدیث میں ہے ) اور دلیل پیش کرنا مشتری پر لازم ہو گا قطع نظر اس فرق کے کہ بائع مدعی ہے یا نہیں ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گذشتہ حدیث اس حديث:
البينة على المدعى واليمين على من أنكر
”دلیل پیش کرنا مدعی پر لازم ہے اور قسم وہ کھائے گا جس نے انکار کیا۔“ سے خاص ہے۔
[ترمذي: 1341 ، دار قطني: 218/4]
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے درمیان عموم خصوص من وجہ کی نسبت ہے۔
اس مسئلے میں اختلاف کا سبب بھی یہی حدیث ہے کیونکہ یہ اپنے عموم کی وجہ سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قسم مدعی علیہ پر جبکہ دلیل مدعی پر ہو گی بغیر اس فرق کے کہ ان میں کوئی بائع یا مشتری ہو یا نہ ہو۔
ان میں سے ایک کو دوسری حدیث پر ترجیح دینے کی کوشش سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ ان دونوں کو جمع کر لیا جائے ۔ وہ اس طرح کہ بائع جب مدعی ہو گا تب ہی دلیل پیش کرے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل میں سودا بائع کا ہی ہے۔ اس پر مشتری کا یہ دعوی ہوتا ہے کہ اس نے مجھے اتنی قیمت پر یہ چیز فروخت کی ہے اور بائع اس کا انکار کرتے ہوئے اس سے زیادہ قیمت کا طلبگار ہوتا ہے۔ ثابت ہوا کہ حقیقت میں مشتری ہی مدعی ہوتا ہے اس لیے اس پر دلیل پیش کرنا لازم ہو گا اور بائع منکر ہوتا ہے اس لیے اس پر قسم کھانا ضروری ہے اس جہت سے دیکھا جائے تو احادیث میں تعارض باقی نہیں رہتا اور یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔
[نيل الأوطار: 609/3 ، تحفة الأحوذى: 554/4 ، سبل السلام: 1045/3]
(مالکؒ ، شافعیؒ ، محمد بن حسن الشیبانیؒ) بائع سے قسم لی جائے گی اور مشتری کو اختیار دیا جائے گا نیز امام شافعیؒ کے نزدیک سودا موجود ہو یا ہلاک ہو چکا ہو ایسا ہی کیا جائے گا۔
(نخعی ، ثوریؒ ، اوزاعیؒ ، ابو یوسفؒ) سودا ہلاک ہونے کے بعد مشتری کی بات کو اس کی قسم کے ساتھ ترجیح دی جائے گی۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: قفو الأثر: 950/3 ، عون المعبود: 479/7 ، الأم: 85/3 ، الحاوى: 296/5 ، بدائع الصنائع: 243/7 ، المبسوط: 30/13 ، بداية المجتهد: 149/2 ، الإنصاف: 447/4]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1