سوال
سائلہ سعدیہ رضی الدین نے اپنے استفتاء میں امام کی تقلید اور جبر کی طلاق ثلاثہ (یعنی زبردستی دی گئی تین طلاقوں) کا شرعی حکم دریافت کیا تھا۔
تقلیدِ شخصی کا حکم بیان کرنے کے بعد، اب جبری (طلاقِ مکرہ) کے متعلق شرعی جواب پیشِ خدمت ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جواب دینے سے پہلے مناسب ہے کہ اکراہ (زبردستی یا جبر) کی شرائط کو سمجھ لیا جائے تاکہ یہ واضح ہو کہ "مکرہ” یعنی زبردستی پر مجبور شخص کون ہوتا ہے۔
اکراہ کی تعریف و شرائط
حافظ ابن حجر عسقلانی اکراہ کی تعریف اور اس کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ألاکراه ھو الإلزام الغیر بما لا یریدہ
یعنی اکراہ کا مطلب ہے کسی کو اس چیز پر مجبور کرنا جسے وہ خود نہیں چاہتا۔
پھر وہ فرماتے ہیں:
شروط الاکراہ أربعة
➊ أن یکون فاعلہ قادرًا علی إیقاع ما یھدد به والمأمور عاجزًا عن دفعه ولو بالفرار.
(ابن ماجہ، باب طلاق المکرہ والناسی، ص147، وحسنه النووی)➋ أن یغلب علی ظنه أنه إذا امتنع أوقع به ذالک.
➌ أن یکون ماھدد به فوریًا، فلو قال إن لم تفعل کذا ضربتک غدًا لا یعد مکرهًا، ویستثنی إذا ذکر زمانًا قریبا أو جرت العادة بأنه لا یخلف.
➍ أن لا یظھر من المأمور ما یدل علی اختیاره.
(فتح الباری، کتاب الاکراہ، ج12، ص385)
اکراہ کی وضاحت
➊ فاعل (دھمکانے والا) اس سزا کے نفاذ پر قادر ہو جس کی دھمکی دی گئی ہو، اور
مامور (جسے دھمکی دی گئی ہو) بالکل بے بس ہو، حتیٰ کہ وہ وہاں سے بھاگ بھی نہ سکے۔
➋ مامور کا غالب گمان ہو کہ اگر اس نے حکم نہ مانا تو اسے واقعی سزا دی جائے گی۔
➌ دی گئی دھمکی فوری نوعیت کی ہو۔ اگر کہا جائے کہ "اگر تم نے یہ نہ کیا تو کل سزا دوں گا”، تو یہ اکراہ نہیں سمجھا جائے گا — سوائے اس کے کہ وقت قریب ہو یا دھمکانے والے کی عادت معلوم ہو کہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
➍ مامور سے ایسا کوئی عمل ظاہر نہ ہو جو اس کے اختیار (رضامندی) کو ظاہر کرے۔
جس شخص میں یہ چاروں شرائط پائی جائیں، وہ شرعی طور پر مکرہ (مجبور) سمجھا جائے گا، بصورتِ دیگر نہیں۔
مکرہ کی طلاق کے بارے میں فقہی اختلاف
فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ مکرہ (زبردستی مجبور کیے گئے شخص) کی طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں۔
- جمہور سلف و خلف (اکثر علما) کے نزدیک:
جس شخص کو قتل یا گن پوائنٹ جیسے خطرے کے تحت طلاق پر مجبور کیا جائے، اس کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ - فقہائے احناف کے نزدیک:
مکرہ کی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
جمہور علما کے دلائل
مجبور (مکرہ) شخص نہ صاحبِ ارادہ ہوتا ہے نہ صاحبِ اختیار۔
اور چونکہ شرعی ذمہ داری (تکلیفِ شرعیہ) کا دار و مدار ارادہ اور اختیار پر ہے، لہٰذا جب یہ دونوں نہ ہوں تو شرعی حکم بھی اس پر لاگو نہیں ہوگا۔
مجبور شخص اپنے تمام افعال کا ذمہ دار نہیں ہوتا کیونکہ وہ مسلوب الاختیار (بے بس) ہوتا ہے۔
اسی اصول کے تحت اگر کوئی شخص جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر بول دے لیکن اس کا دل ایمان پر قائم ہو، تو وہ شرعاً کافر نہیں سمجھا جائے گا۔
قرآنِ مجید کی دلیل
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ … ١٠٦﴾
(سورۃ النحل: 106)
"مگر جس پر زبردستی کی جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔”
تفسیر جلالین میں ہے:
إلا من إکره علی التلفظ بالکفر فتلفظ وقلبه مطمئن بالإیمان.
(ص226)
یعنی جسے کلمۂ کفر کہنے پر مجبور کیا جائے اور وہ صرف زبان سے کہہ دے، دل ایمان پر مطمئن ہو تو وہ کافر نہیں ہوگا۔
اسی قیاس پر اگر کسی شخص کو زبردستی طلاق دینے پر مجبور کیا جائے تو وہ شرعاً معتبر نہیں۔
حدیثِ رسول ﷺ
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: "إن الله وضع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه.”
’’میری امت سے غلطی، بھول، اور جبر کے تحت کیے گئے اعمال کی ذمہ داری اٹھا لی گئی ہے۔‘‘
یعنی ان تین حالتوں میں کیے گئے اعمال شرعاً معتبر نہیں اور ان پر کوئی شرعی مؤاخذہ نہیں۔
لہٰذا زبردستی کے ساتھ دی گئی طلاق بھی شرعاً طلاق نہیں۔
اقوالِ فقہاء
السید محمد سابق المصری فرماتے ہیں:
"وإلى هذا ذهب مالك، والشافعي، وأحمد، وداود من فقهاء الأمصار، وبه قال عمر بن الخطاب، وابنه عبد الله، وعلي بن أبي طالب، وابن عباس.”
(فقه السنة: ج2، ص212)
یعنی:
امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام داود ظاہری رحمہم اللہ کے نزدیک جبری طلاق واقع نہیں ہوتی۔
اسی رائے پر حضرت عمر بن خطابؓ، عبداللہ بن عمرؓ، علی بن ابی طالبؓ، اور ابن عباسؓ بھی متفق ہیں۔
فقہائے احناف کا موقف
اگرچہ فقہائے احناف کے نزدیک مکرہ کی طلاق واقع ہو جاتی ہے،
مگر ان کے پاس اس موقف کی کوئی مضبوط دلیل نہیں۔
علمائے محققین نے اس کی واضح تردید کی ہے۔
السید سابق المصری نے احناف کے اس کمزور موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
"وقال ابو حنیفة وأصحابه طلاق المكره واقع، ولا حجة لهم فيما ذهبوا إليه، فضلًا عن مخالفتهم لجمهور الصحابة.”
(فقه السنة: ج2، ص312)
یعنی امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا یہ کہنا کہ مکرہ کی طلاق واقع ہو جاتی ہے،
اس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں،
بلکہ وہ جمہور صحابہؓ کے خلاف گئے ہیں۔
خلاصۂ کلام
مذکورہ آیتِ قرآنی، احادیثِ نبوی ﷺ، اور جمہور سلف و خلف کے فتاویٰ کے مطابق
مجبور (مکرہ) انسان کی طلاق شرعاً معتبر نہیں۔
یہی موقف درست اور صائب ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب