سوال
شیخ صاحب، اس روایت کی وضاحت کریں جس میں جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہنم کے درجات اور امت کے گناہگاروں کے حوالے سے خبر دی ہے۔
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
روایت کا جائزہ
اس روایت کے متن میں مختلف واقعات اور جذباتی اضافے شامل ہیں جو چند روایات کو ملا کر بیان کیے گئے ہیں۔
اس متن کی وضاحت:
اس میں کچھ الفاظ اور واقعات ایسے ہیں جنہیں الگ الگ روایات سے لیا گیا ہے۔
لیکن ان الفاظ کے ساتھ، جیسا کہ یہاں بیان کیا گیا، یہ مکمل روایت کسی صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔
حقائق
➊ امت کے گناہگاروں کا جہنم میں جانا:
یہ بات درست ہے کہ امت کے بعض گناہگار جہنم میں جائیں گے، جیسا کہ متعدد احادیث میں بیان ہوا ہے۔
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے یہ گناہگار جہنم سے نکالے جائیں گے، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:
"میری سفارش میری امت کے ان لوگوں کے لیے ہوگی جو بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہوں گے۔”
[سنن ترمذی: 2435]
➋ جبرئیل علیہ السلام کا غمگین ہونا:
جبرئیل علیہ السلام کا جہنم کی کیفیت دیکھ کر غمگین ہونا بعض روایات میں مختصراً ذکر ہوا ہے، لیکن یہاں بیان کیے گئے تفصیلی واقعات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔
➌ قرآنی آیت "وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى”:
یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک عظیم بشارت ہے۔
علماء کے مطابق، اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر عطا فرمائیں گے کہ آپ اپنی امت کے لیے مکمل طور پر راضی ہوں گے۔
روایت کی حقیقت
اس روایت کے متن میں جذباتی اضافے اور تفصیلات شامل ہیں جو مستند احادیث میں موجود نہیں ہیں۔
➊ من و عن الفاظ:
اس متن کے تمام الفاظ کسی صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہیں، اور یہ مختلف روایات کو ملا کر بیان کیا گیا ہے۔
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امت کے لیے غمگین ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت کا ملنا، یہ شریعت سے ثابت حقائق ہیں۔
خلاصہ
مذکورہ روایت جیسا کہ یہاں بیان کی گئی، اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے شفاعت اور اللہ تعالیٰ کی بشارت ایک مستند حقیقت ہے۔
مسلمانوں کو ایسی روایات بیان کرتے وقت تحقیق اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔