جانور کے دودھ کو روک کر بیچنے پر حدیثِ مصراة اور اعتراضات کا جائزہ
تحریر: غلام مصطفی ظہیر امن پوری

حديث مصراة

سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تصروا الإبل والغنم، فمن ابتاعها بعد فإنه بخير النظرين بعد أن يحتلبها، إن شاء أمسك، وإن شاء ردها وصاع تمر.

’’(خریدار کو دھوکا دینے کے لیے) اونٹنیوں اور بکریوں کا دودھ نہ روکیں ، جو ایسا جانور خرید لے ، وہ دوباتوں میں سے ایک کا اختیار رکھتا ہے، چاہے تو اسے اپنے پاس رکھ لے اور چاہے تو مالک کو واپس کر دے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع بھی دے۔‘‘
صحیح مسلم کے الفاظ ہیں:

🌿(صحيح البخاري : ٢١٤٨ ، صحیح مسلم : ١٥٢٤)

من ابتاع شاة مصراة فهو فيها بالخيار ثلاثة أيام، إن شاء أمسكها ، وإن شاء ردها، ورد معها صاعا من تمر، لا سمراء .

’’جو دودھ روکی ہوئی بکری خرید لے، وہ تین دن تک (واپس کرنے کا) اختیار رکھتا ہے اور اگر اس نے بکری واپس کرنی ہو، تو اس کے ساتھ ایک کھجور کا صاع بھی دے، نہ کہ گندم کا ۔‘‘
حافظ ابن عبد البرل رحمتہ اللہ (۴۶۳ھ) فرماتے ہیں:
هو حديث مجتمع على صحته وتبوته من جهة النقل .

’’اس حدیث کی صحت اور ثبوت پر اجماع واقع ہو چکا ہے۔‘‘

🌿(التمهيد لما في المؤطا من المعاني والأسانيد : ۲۰۸/۱۸)

🌸امام ترمذی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
العمل على هذا الحديث عند أصحابنا منهم الشافعي، وأحمد، وإسحاق .

’’ہمارے اصحاب امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہو یہ رحمتہ اللہ کے یہاں اسی حدیث پر عمل کیا جاتا ہے۔‘‘
🌿(سنن الترمذي، تحت الحديث : ١٢٥٢)

ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من اشترى شاة مصراة أو ناقة، … فهو منها بآخر النظرين، إذا هو حلب إن ردها، رد معها صاعا من طعام .

’’جو ایسی بکری یا اونٹنی خریدے، جس کا دودھ روک لیا گیا، اس کا دودھ دوہنے کے بعد اس کے پاس دو اختیار ہیں۔ اگر تو اس نے وہ واپس کرنی ہو ، تب وہ اس کے ساتھ ایک صاع طعام (کھجور) بھی مالک کو دے گا۔‘‘
🌿(مسند الإمام أحمد : ۱۸۸۱۹، وسنده صحيح)

نوٹ:

مُصَرَّاةٌ سے مراد وہ جانور ہے، جس کا دودھ اس کے تھنوں میں روک دیا گیا ہو۔ یا در ہے کہ اگر کوئی بکری یا اونٹنی وغیرہ کو بیچنے کے ارادے سے خریدار کو دودھ زیادہ باور کروانے کے لیے ایک دو دن تھنوں میں دودھ روکے رکھے، تو یہ کام نا جائز وحرام اور دھوکا ہے۔
علامہ ابن دقیق العید رحمتہ اللہ (۷۰۲ ھ) فرماتے ہیں:
لا خلاف أن التصرية حرام.

’’جانور کے تھنوں میں دودھ روکنے کی حرمت پر کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
🌿(إحكام الأحكام : ١١٢/٢)

یہ اقدام اس جانور کو عیب دار بنا دیتا ہے، اگر کوئی غلطی سے ایسا جانور خرید لے اور بعد میں اسے جانور کا وہ عیب پتہ چل جائے، تو شریعت نے اسے اجازت دی ہے کہ تین کے اندراندرلوٹا سکتا ہے۔ لیکن جب جانور واپس کرے گا تو جو دودھ پیا ہے ، اس کے عوض ایک صاع (دوسیر چار چھٹانک) کھجور دے گا۔

حدیث مصراۃ اور اہل الرائے

آپ پڑھ آئے ہیں کہ اس کی سند صحیح اور متواتر ہے، ائمہ حدیث و فقل نے اس پر اجماع کیا ہے ۔لیکن اہل الرائے اس حدیث کو خلاف قیاس قرار دے کر رد کرتے ہیں۔

اس حدیث پر انہوں نے مختلف اعتراضات بھی وارد کر رکھے ہیں۔ علامہ ابن العربی اللہ نے عارضہ الاحوذی میں اس حدیث پر وارد آٹھ اعتراضات کے مسکت اور تسلی بخش جوابات دیے ہیں۔ اب یہاں وہ اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ کیجئے:

اعتراض نمبر①:

کتب اہل الرائے میں لکھا ہے کہ حدیث مصراۃ میں جو ایک صاع کھجوروں کا ادا کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے، اس کے اور دودھ کے درمیان کوئی توازن نہیں ، یوں یہ حدیث یہ قیاس کے خلاف ہے اور راوی حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه غیر فقیہ ہیں :
على هذا ترك أصحابنا رواية أبي هريرة في مسألة المصراة بالقياس .

’’اس بنا پر ہمارے اصحاب نے مسئلہ مصراۃ میں ابو ہریرہ رضی الله عنه کی حدیث کو ترک کر دیا ہے۔‘‘

🌿(نور الأنوار : ۱۸۳، أصول الشاشي : ٧٥)

جواب

حدیث ابی ہریرہ رضی الله عنه مسئلہ مصراۃ میں نص ہے اور نص کو ٹھکرانا کسی طور بھی جائز نہیں اور نص کے مقابلہ میں قیاس کو لانا تو اس سے بھی زیادہ قبیح حرکت ہے۔
🌸امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ فرمایا کرتے تھے :
أول من قاس إبليس .

’’(نص کے مقابلہ میں) سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کیا تھا۔‘‘
🌿(مصنف ابن أبي شيبة : ٨٦/١٤، وسنده حسن)

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تین دن کے اندر اندر جانور واپس کرے اور جتنا دودھ بھی پی لیا ہے، اس کے بدلے ایک صاع کھجور اد ا کرے۔ اب آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مقابلہ میں قیاس کھڑا کرنا تعجب خیز ہے۔
🌸علامہ انورشاہ کشمیری صاحب کہتے ہیں :
هذا الجواب باطل لا يلتفت إليه .

’’یہ جواب باطل اور نا قابل التفات ہے ۔‘‘

🌿(فيض الباري : ٢٣/٣)

نیز کہتے ہیں:
أما ما ذكر صاحب المنار وغيره من أن حديث المصراة يرويه أبو هريرة وهو غير فقيه، ورواية الذي ليس بفقيه غير معتبر إذا كانت خلاف القياس ، والقياس يقتضي بالفرق بين اللبن القليل والكثير، ولبن الناقة أو الشاة أو البقرة وغيرها من الأقيسة، فأقول : إن مثل هذا قابل الإسقاط من الكتب فإنه لا يقول به عالم وأيضا هذه الصابطة لم ترد عن أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد .

’’یہ جو صاحب منار وغیرہ نے کہا ہے کہ حدیث مصراۃ جس کے راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه ہیں ، وہ غیر فقیہ ہیں اور غیر فقیہ کی روایت قیاس کے مقابلہ میں معتبر نہیں ہو سکتی ، قیاس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑے اور زیادہ دودھ کے درمیان فرق کیا جائے گا، اسی طرح بکری ، اونٹنی اور گائے وغیرہ کے دودھ میں بھی فرق کیا جائے گا اور اس طرح کے دیگر قیاس ذکر کئے جاتے ہیں۔ میں (انور شاہ) کہتا ہوں : ایسی باتوں کو کتابوں سے نکال دینا چاہئے ، کیونکہ ایسی بات ایک عالم کہہ ہی نہیں سکتا، اسی طرح یہ قاعدہ امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد وغیرہ سے منقول بھی نہیں ہے۔‘‘
🌿(العرف الشذي : ۳۳/۳)

🌸حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ لکھتے ہیں :
’’جس نے حدیث پر اس بنا پر طعن کیا کہ اس کے راوی ابو ہریرہ رضی الله عنه فقیہ نہیں تھے ، لہٰذا قیاس کے خلاف ہونے کی وجہ سے نا قابل عمل ہے۔
هو كلام أذى قائله به نفسه .

’’اس نے یہ بات کہہ کر اپنا ہی نقصان کیا ہے۔‘‘

🌿(فتح الباري : ٣٦٤/٤)

🌸حافظ ذہبی رحمتہ اللہ (۷۴۸ھ) لکھتے ہیں :
قلت : المعتزلة تقول : لو أن المحدثين تركوا ألف حديث في الصفات والأسماء والرؤية والنزول، لأصابوا، والقدرية تقول : لو أنهم تركوا سبعين حديثا في إثبات القدر، والرافضة تقول : لو أن الجمهور تركوا من الأحاديث التي يدعون صحتها ألف حديث، لأصابوا، وكثير من ذوي الرأي يردون أحاديث شافه بها الحافظ المفتي المجتهد أبو هريرة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويزعمون أنه ما كان فقيها، ويأتوننا بأحاديت ساقطة، أو لا يعرف لها إسناد أصلا محتجين بها، قلنا : وللكل موقف بين يدي الله تعالى يا سبحان الله أحاديث رؤية الله فى الآخرة متواترة، والقرآن مصدق لها، فأين الإنصاف؟

’’معتزلہ کہتے ہیں کہ اگر محدثین اسماء وصفات ، رؤیت اور نزول باری تعالیٰ کے بارے میں ایک ہزار احادیث چھوڑ دیتے، تو درست کرتے ۔ قدریہ کہتے ہیں کہ اگر محد ثین اثبات قدر کے بارے میں مروی ستر احادیث چھوڑ دیتے تو اچھا کرتے۔ روافض کہتے ہیں کہ اگر جمہور وہ ہزار حدیث چھوڑ دیں، جن کی صحت کے وہ دعوے دار ہیں، تو اچھا کریں گے۔ اکثر اہل الرائے ایسی احادیث کو بیان کرتے ہیں، جن کو حافظ، مفتی، مجتہد امام ابو ہریرہ رضی الله عنه نے بلا واسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، پھر کہتے ہیں کہ وہ فقیہ نہیں تھے اور خود دلیل کے طور پر من گھڑت احادیث یا بلاسند روایات پیش کرتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے، آخرت میں رویت باری تعالیٰ کی احادیث تو متواتر ہیں اور قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے ، (ان کا انکار کرنے میں) انصاف کہاں ہے؟

🌿(سير أعلام النبلاء للذهبي : ٤٥٥/١٠)

سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه کی کرامت :

🌸قاضی ابوطیب رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
ہم جامع منصور میں ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک خراسانی نوجوان آیا ، اس نے جانور کے تھنوں میں دودھ روکنے کے مسئلے میں سوال کیا، تو ایک محدث نے سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه کی بیان کردہ حدیث پیش کی۔ اس پر وہ خبیث بولا : ابو ہریرہ کی حدیث قبول نہیں۔
اس نوجوان نے ابھی اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گرا، لوگ بھاگنے لگے اور وہ نو جوان بھی اس سانپ کے آگے دوڑنے لگا، بعد میں یہ سانپ غائب ہو گیا۔
🌿(المُنتظم لابن الجوزي : ١٠٦/١٧، وسنده صحيح)

عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنه کا فتویٰ بھی حدیث ابی ہریرہ رضی الله عنه کے موافق ہے:
من اشترى شاة محفلة فردها، فليرد معها صاعا من تمر .

’’جو شخص دودھ رو کی ہوئی بکری خرید لے اور پھر اسے واپس کرنا چاہے، تو وہ اس کے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع بھی دے۔‘‘

🌿(صحيح البخاري : ٢١٤٩)

🌸مولانامحمودالحسن صاحب لکھتے ہیں :

’’مصراۃ کی حدیث کا جو جواب صاحب نورالانوار دیتے ہیں، وہ ہرگز درست نہیں، کیونکہ اگر ابو ہریرہ غیر فقیہ تسلیم کر لیے جائیں، تو ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت جس کو بخاری نے تخریج کیا ہے، اس کا کیا جواب ہوگا ؟‘‘

🌿(نقار مر شیخ الہند : ۱۴۳)

🌸علامہ انورشاہ کشمیری صاحب کہتے ہیں:
من يجترىء على أبي هريرة فيقول : إنه كان غير فقيه؟ ولو سلمنا، فقد يرويه أفقههم، أعني ابن مسعود أيضا، فيعود المحذور.

’’سید نا ابو ہریرہ رضی الله عنه کو غیر فقیہ کہنے کی جسارت کون کر سکتا ہے؟ اگر ہم انہیں غیر فقیہ تسلیم کر بھی لیں تو صحابہ میں سب سے بڑے فقیہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنه نے بھی اسے بیان کیا ہے، لہذا اعتراض پھر لوٹ آیا۔‘‘

🌿(فیض الباري : ۲۳۱/۳)

اعتراض نمبر ②:

🌸مولاناحسین احمد مدنی صاحب کہتے ہیں :
’’آپ کا یہ فیصلہ بطور قاعدہ کلیہ نہیں ہے ، بلکہ ایک جزئی واقعہ میں آپ نے اسے فرمایا تھا، راوی نے روایت بالمعنی کے طور پر اسے قاعدہ کلیہ بنالیا، بہر حال چوںکہ روایت مصراة قواعد کلیہ کے خلاف ہے۔‘‘

🌿(تقریر ترمذی ، ص ۶۷۸)

جواب:

یہ سخت مغالطہ ہے، جس سے کوئی بھی شخص شریعت اسلامیہ کو مشکوک قرار دے سکتا ہے۔ نبی اکرم علی صلى الله عليه وسلم کے فرمان مَنِ اشْتَرى شَاةٌ میں مَنْ عموم کے لیے ہے اور یہ حکم کلی طور پر عام ہے ۔ سید نا عبداللہ بن مسعود نبی صلى الله عليه وسلم کا فتوی بھی اس بات کی عکاسی کرتا ہے ۔
🌸 علامہ ابن حزم (۴۵۶ھ) فرماتے ہیں:
قالوا : هو مخالف للأصول؟ فقلنا : كذبتم، بل هو أصل من كبار الأصول، وإنما المخالف للأصول قولكم في الوضوء من القهقهة في الصلاة خاصة، وقولكم بأن القلس لا ينقض الوضوء أصلا إلا إذا كان ملء الفم، وقولكم في جعل الآبق أربعون درهما إذا كان على مسيرة ثلاث، وقولكم في عين الدابة ثمنها، والوضوء بالخمر، وسائر تلك الطوام التي هى بالمضاحك، وبما يأتي به المبرسم أشبه منها بشرائع الإسلام .

’’لوگ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اصول (قیاس) کے خلاف ہے، ہم کہتے ہیں کہ یہ تمہارا جھوٹ ہے، یہ حدیث (اسلام کے) عظیم الشان اصولوں میں سے ایک اصول ہے، قیاس کے خلاف تو تمہاری یہ بات ہے کہ صرف نماز میں قہقہہ ناقض وضو ہے اور یہ بات کہ قے منہ بھر کر نہ ہو، تو بالکل ناقض وضو نہیں، نیز یہ کہنا کہ اگر غلام تین دن کی مسافت بھاگ گیا ہو ، تو اس پر چالیس درہم ( جرمانہ ) ہے، جانور کی آنکھ (ضائع کرنے) میں اس کی کل قیمت کا چوتھائی حصہ (جرمانہ) ہے اور شراب (پختہ نبیذ) سے وضو اور اس جیسے کئی مضحکہ خیز مسائل ہیں کہ بسا اوقات پاگل آدمی بھی ان سے بڑھ کر اسلامی اصولوں سے ملتی جلتی بات کر دیتا ہے۔‘‘

🌿(المُحَلّى : ٦٧/٦-٦٨)

اعتراض نمبر ③:

🌸مولانا حسین احمد مدنی صاحب لکھتے ہیں :
تو جب دودھ ملک مشتری (خریدار کی ملکیت) ہے، کیونکہ کھلایا پلایا اس نے    ہے، تو اب اس سے ایک صاع کا مطالبہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟“

🌿(تقریر ترمذی ، ص ۶۷۷)

جواب:

یہ فیصلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور آپ کا ہر فیصلہ عدل وانصاف پر مبنی ہے، مومنوں کو چاہیے کہ وہ اللہ ورسول کا ہر فیصلہ دل وجان سے قبول کریں۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
وما كان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى الله ورسوله أمرا ان يكون لهم الخيرة من امرهم ومن يعص الله ورسوله فقد ضل ضللا مبينا.

🌿(الأحزاب : ٣٦)
’’کسی مومن مرد اور عورت کے لیے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کر دیں، تو اس کے لیے کوئی اختیار باقی رہے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ، وہ واضح گمراہ ہو گیا۔‘‘
اگر دودھ دوہنے سے پہلے جانور واپس کر دیا جائے، تو ایک صاع کھجور واپس کرنا ضروری نہیں ، یہ اجماعی مسئلہ ہے۔
🌸حافظ ابن عبد البر رحمتہ اللہ (۴۶۳) فرماتے ہیں:
هذا ما لا خلاف فيه فقف عليه .

’’یہ الیسا مسئلہ ہے، جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، لہذا اسے اختیار کیجئے ۔‘‘
🌿(الاستذكار : ٥٣٤/٦ ، التمهيد : ٢١٦/١٨)

اعتراض نمبر ④ :

🌸مولانا حسین احمد مدنی صاحب کہتے ہیں:
’’امام صاحب (ابو حنیفہ) فرماتے ہیں کہ یہ تصریہ (جانور کے تھنوں میں دودھ روکنا ، یہ باور کرانے کے لیے کہ یہ جانور بہت دودھ دینے والا ہے ) عیب نہیں ہے، وجہ یہ ہے کہ عقد ( لین دین ) کا مقتضا یہ ہے کہ مبیع ( فروخت شدہ جانور ) عیوب سے خالی ہو، یہ عیب جو دودھ میں ہے ، یہ اس کے ثمرات و منافع اور زوائد میں ہے ، جس کی وجہ سے نفسِ بیع پر کوئی اثر نہیں پڑتا ،خواہ دودھ کم ہو یا بہت ، لہذا بیچ کا فسخ کرنا اور مبیع ( فروخت شدہ جانور ) کا رد کرنا جائز نہ ہوگا ، بلکہ یہ پیج لا زم ہوگئی ہمشتری اور قاضی کو اس کے فتح کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘

🌿(درس ترمذی ، ص ۶۷۵)

جواب:

جانور واپس لوٹانے کا حق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ ہے اور آپ کا عطا کردہ حق کسی سے چھینا نہیں جاسکتا۔ اس بات سے بچہ بچہ واقف ہے کہ جانور کے تھنوں میں دودھ روکنا، یہ باور کرانے کے لیے کہ یہ جانور بہت زیادہ دودھ دینے والا ہے، صریح دھوکا اور عیب ہے، خریدار نے جب جانور خریدا تھا، اس کے دودھ کی زیادتی کو دیکھ کر، جبکہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جانور تو ادا کردہ قیمت کے مطابق بہت کم دودھ دیتا ہے، تو یہ واضح عیب ہے ، اس عیب کے با وجود اگر وہ بیچ فسخ نہ کرنا چاہے، تو نہ کرے، یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔

اعتراض نمبر ⑤ :

🌸مولاناحسین احمد مدنی صاحب کہتے ہیں:
’’یہ دوسری بات ہے کہ بائع ( بیچنے والا ) اور مشتری ( خرید نے والا ) باہمی رضا مندی سے رد کرنا چاہیں، تو یہ جائز ہے ۔‘‘
🌿(تقریر ترمذی ،ص ۶۷۵)

جواب:

یہاں باہمی رضامندی کا کوئی گزر نہیں، مرضی اور رضامندی صرف شریعت کی چل سکتی ہے۔ نبی اکرم صلی صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدار کو ان الفاظ میں اختیار دیا ہے:
إن شاء أمسك، وإن شاء ردها وصاع تمر .

’’اگر چاہے، تو پاس رکھ لے اور اگر چاہے، تو جانور ایک صاع کھجوروں کے ہمراہ واپس کر دے۔‘‘
اگر خریدار اپنا یہ حق استعمال کرنا چاہے، تو بیچنے والے پر فرمان نبوی کے مطابق لازم ہے کہ وہ یہ جانور واپس لے، بصورت دیگر حدیث کا مخالف ٹھہرے گا اور گناہ گار ہوگا۔

اعتراض نمبر ⑥:

🌸مولانامحمد سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں:
’’یہ حدیث قرآنی ضابطہ ﴿فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم) سے متعارض ہے۔ (فتح القدیر: ۱۴۱۱۲) یعنی تلف شدہ چیز کا تاوان بالمثل ہوتا ہے، عام اس سے کہ مثل صوری ہو یا معنوی ، یعنی قیمت اور ’’صاع من تمر‘‘ (ایک صاع کھجوریں) نہ تو مثل لبن ( دودھ کی مثل ) اور نہ قیمت لبن ہے۔‘‘
🌿(الکلام المفید ، ص ۲۷۲ ۲۷۳، خزائن السنن ، ص ۵۴۸)

جواب:

◈حدیث کو قرآن کے معارض قرار دے کر ترک کرنے والی روش اہل سنت کی ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ منکرین حدیث اور معاندین کی روش ہے۔
🌸مولانا سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں :
’’صحاح ستہ کی صحیح احادیث میں سے کوئی حدیث قرآن کریم کی کسی بھی آیت کریمہ کے ہرگز خلاف نہیں ، اگر کسی کو تاہ فہم کو صحاح ستہ کی کسی حدیث کا قرآنِ کریم کی کسی آیت کریمہ سے تضاد نظر آتا ہے تو وہ اس کی اپنی سوء فہم کا نتیجہ ہے۔ ایسا سطحی قسم کا تعارض تو قرآن کریم کی بعض آیات کریمات کا آپس میں بھی معلوم ہوتا ہے ۔‘‘

🌿(شوق حدیث ، ص ۱۵۳)

اس کے باوجود معلوم نہیں کہ صفدر صاحب کیوں حدیث مصراۃ کو قرآن کے خلاف قرار دے کر ٹھکرارہے ہیں؟

◈ اس آیت کریمہ کا تعلق عقوبات ( تعزیرات ) سے ہے، جبکہ اس حدیث کا تعلق اموال کے ساتھ ہے ، اموال کا تاوان کبھی بالمثل ہوتا ہے اور کبھی بالمثل نہیں بھی ہوتا۔

◈اگر ایک صاع کھجوریں نہ دودھ کی مثل صوری ہیں ، نہ مثل معنوی یعنی قیمت ہیں، تو یہ مثل شرعی ہو ئیں ، کیونکہ اس دودھ کی مثل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کی ہے اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم متعین کر دیں ، وہاں کسی کو مجال انکار نہیں ہونا چاہئے ۔

اعتراض نمبر ⑦ :

🌸صفدر صاحب مزید لکھتے ہیں :
’’یہ حدیث ’’الخراج بالضمان‘‘ کی حدیث کے خلاف ہے (ابو داؤد : ۱۳۹/۲ (۳۵۰۸ وسنده حسن) یعنی جو شخص کسی چیز کے نقصان کو برداشت کرتا ہے تو چیز کا نفع بھی اس کا ہو گا، چونکہ مشتری (خریدار ) دودھ دینے والے جانور کا خرچہ اٹھاتا ہے، اس لیے اس کے دودھ کا حقدار بھی وہی ہے، جو عادتاً چارہ کی قیمت سے زیادہ ہوتا ہے ، اس کے بدلے میں اسے بائع ( بیچنے والے) کو کچھ بھی نہیں دینا پڑتا ، جبکہ حدیث المصراۃ میں ’’صاع من التمر‘‘ (ایک صاع کھجوروں کا) دینا پڑتا ہے ۔‘‘

🌿(الکلام المفید، ص ۲۷۳)

جواب:

◈یہ تمام باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مد نظر تھیں ، اس کے باوجود آپ نے ایک صاع کھجور میں بھی دینے کا حکم فرمایا۔ یہ خوامخواہ احادیث میں تعارض پیدا کر کے آسان مسائل کو الجھانے والی بات ہے۔ حدیث ’’الخراج بالضمان‘‘ عام ہے اور حدیث مصراة خاص ہے ، عام اور خاص میں تعارض ہو ، تو خاص کو مقدم کرتے ہیں، لہذا تعارض ختم ہوا۔

امام طحاوی رحمتہ اللہ نے حدیث مصراۃ کو حدیث ’’الخراج بالضمان‘‘ کے معارض قرار دیا، تو اس کے جواب میں مولانا انور شاہ کشمیری صاحب کہتے ہیں :
أقول : إن هذا الجواب ليس بذاك القوي .

’’یہ کوئی ٹھوس (تسلی بخش) جواب نہیں ۔‘‘

🌿(العرف الشذي : ٣٦٨/١)

اعتراض نمبر ⑧:

🌸مولانا سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں :
’’طعام کی طعام کے ساتھ ’’نسیئة‘‘ ( ادھار ) بیع جائز نہیں ، دودھ اور تمر ( کھجور ) اور کا طعام ہونا ، تو واضح ہے اور ’’نسیئة‘‘ ( ادھار ) بھی ظاہر ہے کہ دودھ دوہنے کا زمانہ کیا ہے اور صاع من التمر “ ایک صاع کھجور میں ) ادا کرنے کا زمانہ کیا ہے؟ اور حدیث المصر اۃ اس کے خلاف ہے۔‘‘

🌿(الكلام المفید ،ص ۲۷۳)

جواب:

یہ بیع (خرید و فروخت) نہیں ہے، بلکہ بیع کے منعقد ہو جانے کے بعد دودھ کی کمی کی صورت میں ایک عیب ظاہر ہوا ہے، جو بیچ کے فسخ کا سبب بنا ہے، اس وقت ایک صاع کھجور میں ادا کرنے کا نبوی حکم ہے، اس کو بیع قرار دینا درست نہیں۔
باقی رہا طعام کی طعام کے ساتھ ادھار بیع کا جائز نہ ہونا ، تو اس کا تعلق کچھ اجناس کے ساتھ ہے، دودھ ان اجناس میں شامل نہیں ۔

اعتراض نمبر ⑨:

🌸مولانا سرفراز صفدر صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’جزاف (تخمینہ والی چیز) کوکیل و موزون (جس کا وزن کیا گیا ہو) کے مقابلہ میں بیچنا جائز نہیں ہے اور یہاں دودھ جزاف (تخمینہ والی چیز) ہے اور وہ مجبول ہے اور ’’صاع من التمر‘‘ (ایک صاع کھجور) معلوم ہے اور حدیث المصر اس طے شدہ قاعدہ کے خلاف ہے۔‘‘

🌿(الکلام المفید ، ص ۲۷۳)

جواب:

جب یہ بیع ہے ہی نہیں ، تو طے شدہ قاعدہ کے خلاف کیسے ہوگئی ؟ نبوی فیصلے کے مطابق ایک صاع کھجور میں تمام دودھ کا مثل ہیں۔

اعتراض نمبر ⑩:

🌸مولانا سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں:
’’امام طحاوی فرماتے ہیں کہ حدیث مصراہ پہلے کی ہے اور حرمت ربا (سود کی حرمت ) کا حکم اس کے بعد کا ہے اور چونکہ ربوٰ (سود ) حرمت نص قطعی اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، لہذا اس کا حکم منسوخ ہے۔‘‘
🌿(الکلام المفید، ص ۲۷۳)

جواب:

امام طحاوی رحمتہ اللہ کا دعوی سخ بلا دلیل ہے، آپ رحمتہ اللہ ایسا دعویٰ اکثر کر دیتے ہیں۔
🌸حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ لکھتے ہیں :
لكنه يكثر من ادعائه النسخ بالاحتمال فجرى على عادته .

’’آپ رحمتہ اللہ کی عادت ہے کہ اکثر اوقات محض احتمال کی بنیاد پر نسخ کا دعویٰ کر دیتے ہیں۔‘‘
🌿(فتح الباري : ٤٧٨/٩)
🌸علامہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ (۷۲۸ ھ) فرماتے ہیں:
نجد كثيرا من الناس ممن يخالف الحديث الصحيح من أصحاب أبي حنيفة أو غيرهم يقول : هذا منسوخ وقد اتخذوا هذا مجنة؛ كل حديث لا يوافق مذهبهم يقولون : هو منسوخ من غير أن يعلموا أنه منسوخ ولا ينبتوا ما الذي نسخه.

’’ہم نے کثیر تعداد میں امام ابو حنیفہ اللہ کے اصحاب وغیرہ کو پایا ہے، جو صحیح حدیث کی مخالفت کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ منسوخ ہے، یہ ان کا وطیرہ ہے کہ ہر حدیث جو ان کے مذہب کے مطابق نہ ہو، بغیر علم کے اس کو منسوخ قرار دیتے ہیں، وہ اس حدیث کا دلیل سے ناسخ بھی ثابت نہیں کر سکتے ۔‘‘
🌿(مجموع الفتاوى : ١٥٠/٢١)

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنه کا قتوی اس بات پر صریح دلیل ہے کہ یہ حدیث منسوخ نہیں ۔

اعتراض نمبر ⑪:

🌸مولانا سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں :
’’امام طحاوی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث نهى عن بيع الكالي بالكالي يعني الدين بالدین کے خلاف ہے (طحاوی : ۱۶۹/۲) یعنی نہ تو ابھی تک مشتری (خریدار) نے پورا دودھ وصول کیا اور نہ بائع ( بیچنے والے ) نے تمر (کھجوروں ) کا صاع وصول کیا تو یہ دین بالدین ہے، جس سے نہی آئی ہے، یہ روایت رافع بن خدیج سے بھی مرفوعاً مروی ہے (نصب الرایۃ : ۴۰/۴ عن الطبرانی) اور حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی مرفوعاً مروی ہے، ان کی روایت دارقطنی (۳۱۹) سنن کبری بیہقی (۲۹۰/۵) وغیرہ ۔‘‘

🌿(الکلام المفید ، ص ۲۷۳ ۲۷۴)

جواب:

یہ حدیث سنن دار قطنی (۷۱/۳، ح: ۳۰۴۱-۳۰۴۲) مسند بزار ( کشف الاستار: ۱۲۸)، لمعجم الكبير لطبرانی (۴۳۷۵) اسفن الکبری للہ بھی (۲۹/۵)، المستدرک للحاکم (۵۷۱۲) میں آتی ہے، اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے ، موسیٰ بن عبیدہ زبدی ’’ضعیف‘‘ ہے۔
🌸حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ (۷۷۱ھ) فرماتے ہیں:

إن الربدي ضعيف عند الأكثرين .

’’ربذی اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔‘‘

🌿(تفسير ابن كثير : ١٤٨/٤)

دارقطنی اور حاکم کی سند میں موسیٰ بن عقبہ ہے۔

🌸علامہ زیلعی رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:
غلطهما البيهقي وقال : إنما هو موسى بن عبيدة الربدي .

’’امام بیہقی رحم رحمتہ اللہ نے دار قطنی اور حاکم رحم رحمتہ اللہ کو (موسی بن عقبہ کہنے میں) خطا کار ٹھہرایا ہے۔ نیز فرمایا ہے کہ یہ اصل میں موسیٰ بن عبیدہ ربزی ہی ہے۔‘‘
🌿(نصب الراية : ٤٠/٤)

لہذا اس روایت کو امام حاکم رحم رحمتہ اللہ وغیرہ کا ’’صحیح‘‘ کہنا ’’درست‘‘ نہیں۔

مصنف عبدالرزاق (۹۰/۸) کی سند میں ابراہیم بن ابی یحییٰ اسلمی ’’ضعیف‘‘ ہے۔ حدیث مصراۃ میں جو تین دن کے اندر اندر واپسی کا اختیار دیا گیا ہے، ان دنوں میں جو دودھ پیا ہے ، اس کے عوض میں ایک صاع کھجوریں دے گا۔ یہ دودھ اور کھجوروں کی بیع نہیں ہے، بلکہ نبوی فیصلہ ہے اور فقیہ امت سیدنا ابن مسعود رضی الله عنه کا فتوی اس پر دال ہے کہ حدیث مصراۃ شریعت کی کسی نص کے خلاف نہیں ۔

اعتراض نمبر ⑫:

🌸مولانا سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں :
’’اکابر علمائے دیوبند کا اس حدیث پر عمل ہے، فیض الباری (۲۳۱/۲)، العرف الشذی (۲۳۶) اور بوادر النوادر (۱۰۷) میں ہے کہ حدیث المصراۃ صلح اور مشورہ پر محمول ہے اور صلح و دیانت اور مشاورت مساوات کے قیاسی اصول سے
بالاتر معاملہ ہوتا ہے ۔‘‘

🌿(خزائن السنن ص ۴۹-۵۰)

جواب:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فیصلہ کے لیے اور ضابطہ بنا کر دیا ہے۔ تو اس میں یہ شرط بغیر کسی دلیل کے نہیں لگائی جاسکتی کہ جب بائع اور مشتری راضی ہوں گے ، تب کھجوروں کا صاع واپس کرنا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ۔
🌸حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ (۷۵۱ھ) لکھتے ہیں :
المحكم الصحيح الصريح في مسألة المصراة بالمتشابه من القياس، وزعمهم أن هذا حديث يخالف الأصول فلا يقبل، فيقال : الأصول كتاب الله وسنة رسوله وإجماع أمته والقياس الصحيح الموافق للكتاب والسنة، فالحديث الصحيح أصل بنفسه ، فكيف يقال : الأصل يخالف نفسه؟ هذا من أبطل الباطل، والأصول في الحقيقة اثنان لا ثالث لهما كلام الله، وكلام رسوله، وما عداهما فمردود إليهما؛ فالسنة أصل قائم بنفسه، والقياس فرع، فكيف يرد الأصل بالفرع ؟ قال الإمام أحمد : إنما القياس أن تقيس على أصل، فأما أن تجيء إلى الأصل فتهدمه، ثم تقيس، فعلى أي شيء تقيس؟ وقد تقدم بيان موافقة حديث المصراة للقياس، وإبطال قول من زعم أنه خلاف القياس، وأنه ليس في الشريعة حكم يخالف القياس الصحيح، وأما القياس الباطل فالشريعة كلها مخالفة له، ويا لله العجب، كيف وافق الوضوء بالنبيذ المشتد للأصول حتى قبل وخالف خبر المصراة للأصول حتى رد .

’’(احناف نے) مسئلہ مصراۃ میں صحیح و صریح نص کو قیاس کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ حدیث اصول (قیاس) کے خلاف ہے ، لہذا قبول نہیں کی جائے گی ، ان کو جوابا یوں کہا جائے گا کہ اصول تو اللہ کی کتاب ، اس کے رسول کی سنت ، اجماع امت اور صحیح قیاس کا نام ہے اور صحیح قیاس وہ ہے، جو کتاب وسنت کے مطابق ہو، چنانچہ صحیح حدیث خود ایک مستقل اصل ہے، کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ایک اصل اپنے ہی خلاف ہے؟ یہ باطل ترین بات ہے، درحقیقت اصول دو ہی ہیں، تیسرا کوئی نہیں ، یعنی قرآن وحدیث ، ان کے علاوہ ہر بات انہی کی طرف لوٹائی جائے گی ، معلوم ہوا کہ حدیث اصل ہے اور قیاس فرع ہے، فرع کی وجہ سے اصل کو کیونکر چھوڑا جا سکتا ہے؟ حالانکہ پہلے حدیث مصراۃ کا قیاس کے مطابق ہونا بیان ہو چکا ہے، یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ اسے خلاف قیاس سمجھنا باطل ہے، نیز شریعت کا کوئی حکم قیاس صحیح کے خلاف نہیں، رہا قیاس باطل تو ساری شریعت ہی اس کے مخالف ہے۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ گاڑھے نبیذ سے وضو کرنا قیاس کے مطابق سمجھ کر کیسے مان لیا گیا اور حدیث مصراۃ قیاس کے خلاف سمجھ کر کیسے چھوڑ دی گئی ؟‘‘

🌿(إعلام الموقعين : ۳۱۱/۲)

الحاصل:

حدیث مصراۃ سند ومتقن ہر لحاظ سے صحیح ثابت ہے اور اس کے راوی سید نا ابو ہریرہ رضی الله عنه فقیہ ہیں۔ ان کو اپنے مسلک اور مذہب کے تعصب میں آکر غیر فقیہ قرار دینا انتہائی ناجائز رویہ ہے اور صحابی رسول کی جناب میں صریح گستاخی ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی اسی صورت احوال پر دل گرفتہ ہو کر کہتے ہیں :

’’اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے، ان کے قلب میں انشراح وانبساط نہیں رہتا، بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے، پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے، خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو، بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو، بلکہ خود اپنے دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو، مگر نصرت مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں ، دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح پر عمل کر لیں۔‘‘
🌿(تذکرۃ الرشید از عاشق الہی: ۱۳۱/۱)
تو ہم کو چاہئے کہ جب کوئی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جائے ۔ اس کو تسلیم کریں اور اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔ اسی میں خیر ہے اور یہی سلامتی کا راستہ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے