جانوروں پر لعنت کرنے کی ممانعت: حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال :

سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض أسفاره، وامرأة من الأنصار على ناقة، فضحرت فلعنتها، فسمع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : خذوا ما عليها ودعوها، فإنها ملعونة .
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر پر تھے، ایک انصاری عورت اپنی اونٹنی پر سوار تھی ، اونٹنی تھک گئی ، تو عورت نے اس اونٹنی پر لعنت کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب سن لیا، تو فرمایا: اس اونٹنی پر جو ( سامان وغیرہ) ہے، اسے اٹھا لیں اور اونٹنی کو چھوڑ دیں، یہ ملعونہ ہے۔
(صحیح مسلم : 2595)
لعنت تو کسی گناہ کے بدلے میں کی جاتی ہے، جبکہ اونٹنی غیر مکلف ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ملعونہ کیوں قرار دیا؟

جواب :

اونٹنی پر لعنت کا مطلب ہے کہ یہ بے فائدہ اور بے فیض ہو چکی ہے، یہ سواری کے قابل نہیں رہی۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنما السؤم فى ثلاثة : فى الفرس، والمرأة، والدار .
نحوست تین چیزوں میں ہے ، گھوڑے، عورت اور گھر میں ۔
(صحيح البخاري : 2858، صحیح مسلم : 2225)
یادر ہے کہ اس حدیث میں نحوست سے مراد جاہلی عقائد والی نحوست نہیں ہے، بلکہ یہ نحوست بے برکتی اور اکتاہٹ کے معنی میں ہے۔
اسی معنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ملعونہ کہا ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری عورت کو بطور سز اسواری سے اتار دیا ہو کہ اس پر لعنت بھی کرتی ہے اور سوار بھی ہے؟ تاکہ وہ دوبارہ جانوروں پر لعنت نہ کرے، کیونکہ جانوروں پر لعنت کرنا بھی ممنوع ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے