جاز کیش و ایزی پیسہ پر اضافی رقم لینے کے 3 شرعی پہلو

سوال:

جو دکاندار جیز کیش یا ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے پیسے نکالتے ہوئے ایک ہزار روپے کے عوض بیس روپے اضافی وصول کرتے ہیں، ان کا یہ عمل شرعی طور پر کس زمرے میں آتا ہے؟

جواب

از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جیز کیش، ایزی پیسہ یا موبی کیش جیسی سہولیات کے ذریعے اگر دکاندار آپ کو یہ خدمت فراہم کرتا ہے اور اس کے عوض کچھ رقم لیتا ہے، تو یہ معاملہ درست ہے۔

دکاندار اس میں وقت دیتا ہے، سہولت دیتا ہے، اور ہر دکاندار کی فیس مختلف ہو سکتی ہے؛ کوئی کم لیتا ہے تو کوئی زیادہ۔

لہٰذا، اس صورت میں اگر وہ سہولت مہیا کرنے کی اجرت لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

سوال:

جاز کیش یا ایزی پیسہ کرنے والے دکاندار ہزار روپے کے پیچھے 10 یا 20 روپے لیتے ہیں، کیا یہ لینا جائز ہے؟

جواب

از فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

دکاندار اگر جاز کیش یا ایزی پیسہ کے ذریعے رقم منتقل کرنے پر اضافی رقم لیتا ہے، تو دیکھنا ہوگا کہ یہ اضافی رقم کس بنیاد پر لی جا رہی ہے۔

اگر یہ رقم اپنی خدمات کی اجرت کے طور پر لی جا رہی ہو، یعنی طے شدہ فیس ہو، تو یہ جائز ہے۔

لیکن اگر یہ رقم قرض پر اضافے کی شرط ہو، یعنی دکاندار قرض دے اور واپسی پر اس میں اضافہ وصول کرے، تو یہ سود (ربا) کے زمرے میں آئے گا اور یہ حرام ہے۔

وضاحت:

سائل: اس میں شیخ محترم، قرض والا معاملہ کون سا ہوتا ہے؟ اگر آپ کے علم میں ہے تو وضاحت فرمائیں، ورنہ ہمیں لگتا ہے کہ وہ اپنی خدمت کی مزدوری ہی لیتا ہے۔ اگر وہ یہ بھی نہ لے، تو اس خدمت سے اسے کیا فائدہ ہوگا؟

جواب

از شیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

بعض اوقات اس میں قرض کا معاملہ بھی پایا جاتا ہے۔

مجھے ایک جاز کیش کا کام کرنے والے شخص نے بتایا کہ:

"میں کسی کو رقم بھیجنا چاہ رہا تھا، لیکن اس وقت میرے پاس رقم موجود نہ تھی۔ تو میں نے دکاندار سے کہا کہ آپ ابھی رقم بھیج دیں، میں آپ کو ایک ہفتے بعد یا کچھ وقت بعد ادا کر دوں گا۔”

اس صورت میں دکاندار نے قرض دیا اور اس پر اضافی رقم مشروط کی، تو یہ سود کے زمرے میں آ جائے گا اور یہ حرام ہو گا۔

خلاصہ:

اگر دکاندار کی طرف سے جاز کیش یا ایزی پیسہ کے ذریعے رقم منتقل کرنے پر طے شدہ سروس فیس لی جائے، تو یہ جائز ہے۔

لیکن اگر دکاندار قرض دے کر اس پر اضافی رقم کی شرط رکھے، تو یہ سود شمار ہو گا اور یہ عمل ناجائز اور حرام ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1