جادو سے بچاؤ کی7 تدابیر قرآن و صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شخبوط بن صالح بن عبدالھادی المری کی کتاب اپنے آپ پر دم کیسے کریں (نظربد، جادو، اور آسیب سے بچاو اور علاج) سے ماخوذ ہے۔ کتاب پی ڈی ایف میں ڈاونلوڈ کریں۔

جادو سے بچاؤ کی تدابیر

مسلمان کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جادو اور جادوگروں کے شر سے بچ کر رہے تا کہ نہ نظر لگے نہ جادو چلے۔ اس لیے درج ذیل امور کا ہونا ضروری ہے:
لغت میں: جادو وہ ہے جو مخفی ہو، اور اس کا سبب انتہائی لطیف ہو۔ یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس کے اعمال واسباب انتہائی مخفی ہوتے ہیں۔ اصطلاح میں: وہ جھاڑ پھونک، تعویز وگنڈے، منتر اور طلسمی عملیات جو اللہ کے حکم سے انسان کے دل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس سے مقصود جادو کیے گئے انسان کو تکلیف پہنچانا ہوتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: [البقرة: 102] وہ کسی کو اللہ کے حکم کے بغیر تکلیف نہیں پہنچا سکتے۔ [المفيد من كتاب التوحيد لابن عثیمین رحمہ اللہ ص 313]

1. اللہ تعالیٰ کی توحید خالص کا وجود:

توحید خالص اللہ تعالیٰ کی عظمت کے پختہ اعتقاد سے آتی ہے، جو اس کی عزت وقدر کا حق ادا کرنے اور عبادت میں اس کی توحید ویگانگت بجا لانے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ ان چیزوں میں کسی غیر کا کوئی حق نہیں۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء وصفات کو بجا لانا ضروری ہے۔ اگر انسان کے دل میں یہ چیزیں اچھی طرح راسخ ہو جائیں تو اسے کسی قسم کی جھاڑ پھونک یا دم وغیرہ کی ضرورت ہی نہیں رہتی، چہ جائے کہ وہ شرور اور آفات سے بچنے کے لیے اقدامات کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ
[غافر: 14]
تم اللہ کی عبادت کو خالص کر کے اسے پکارو اگرچہ کافر برا ہی مانیں۔
توحید میں اخلاص شیطانی چالوں سے نجات کا بہترین ذریعہ ہے اور خود شیطان نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بات نقل کی ہے:
قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ
[الحجر: 39-40]
کہا پروردگار! جیسے تو نے مجھے راستے سے الگ کیا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لیے گناہوں کو آراستہ کر دکھاؤں گا اور سب کو بہکاؤں گا۔ ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ان پر قابو پانا مشکل ہے۔

2. اللہ تعالیٰ کا تقویٰ:

انسان جب بھی اللہ تعالیٰ کا ڈر وخوف رکھے گا اور خفیہ اور اعلانیہ امور میں اللہ تعالیٰ کی نگہبانی کا احساس کرے گا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے حکم اور فضل وکرم سے اس سے شرور، آفات اور آزمائش کا خاتمہ کر دیں گے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا
[الطلاق: 2]
جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی راہ نکال دیتا ہے۔
نیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
[فصلت: 18]
اور ہم نے ایمان والوں اور پارساؤں کو بال بال بچا لیا۔

3. واجبات کی ادائیگی اور حرام سے اجتناب، گناہوں سے توبہ:

اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ
[الشورى: 20]
جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے اور جو کوئی دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے ہم اس میں سے کچھ دے دیں گے اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں۔

4. کثرت سے تلاوت قرآن:

بلاشبہ قرآن مجید میں تمام بدنی اور قلبی بیماریوں کی مکمل دوا اور علاج ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ
[الإسراء: 82]
اور ہم اتارتے ہیں قرآن میں سے جو شفا اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا تھا: اس بیماری کا علاج قرآن سے کرو۔
[الصحيحة: 1931، صحيح الجامع: 3969]
خصوصاً سورۃ البقرہ کی تلاوت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورۃ البقرہ پڑھا کرو، بیشک اس کا پڑھنا برکت کا باعث ہے، اور اس کا چھوڑ دینا باعث حسرت وندامت ہے۔ اور جادوگر اسے توڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
[ صحيح مسلم: 804]
حضرت معاویہ بن صرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بطلہ سے مراد جادوگر ہیں۔

5. مسنون دعاؤں اور اذکار کے ذریعہ حفاظت کا اہتمام:

ان دعاؤں میں سے:
بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اس اللہ کے نام کے ساتھ جس کی برکت سے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی زمین میں ہو یا آسمانوں میں اور وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
تین تین بار صبح وشام یہ دعا پڑھ لینا انسان کے لیے ہر برائی اور شر وفساد سے حفاظت کا ذریعہ وسبب بن جاتی ہے۔

❀ آیت الکرسی پڑھنا:

فرض نماز کے بعد پہلے دیگر مسنون اذکار پڑھے جائیں، پھر آیت الکرسی پڑھی جائے۔ اور سوتے وقت اور صبح وشام ایک ایک بار یہ پڑھی جائے۔ یہ قرآن کریم کی سب سے عظیم الشان آیت ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ
[البقرة: 255]
اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، جو ہمیشہ زندہ اور ساری کائنات کو تھامنے والا ہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند، اسی کا ہے وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے، اور وہ سب کچھ جو زمین میں ہے، کون ہے جو اس کی جناب میں کوئی سفارش کر سکے، مگر اسی کے اذن سے، وہ جانتا ہے وہ سب کچھ جو ان کے سامنے ہے، اور وہ سب کچھ جو ان کے پیچھے ہے، جب کہ یہ لوگ اس کے علم کی کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے، مگر جتنا کہ وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے، اور ان دونوں کی حفاظت اسے نہیں تھکاتی، اور وہی سب سے برتر، نہایت عظمت والا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آية الكرسى الله لا إله إلا هو الحي القيوم ، مکمل پڑھو تو عمل. اللہ تعالی کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہو جائے گا اور شیطان صبح تک تمہارے قریب بھی نہ آسکے گا ۔
[ الطبراني حسن، البخاري مع الفتح: 4/613]
جو انسان بستر پر جاتے وقت آیت الکرسی پڑھ لے تو صبح تک اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک محافظ فرشتہ رہتا ہے اور شیطان اس کے قریب نہیں جا سکتا۔
[البخاري: 5010]
❀ سورۃ البقرہ کی آخری آیات: رات کے پہلے حصے میں یہ دو آخری آیات پڑھ لیں:
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
[البقرة: 285-286]
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ایمان لائے جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہل ایمان نے بھی، سب ہی اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، نیز کہتے ہیں: ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان بھی فرق نہیں کرتے، اور عرض کرتے ہیں: ہم نے سنا اور اطاعت کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور ہم سب کو تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا، اس نے جو نیکی کمائی اس کے لیے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ فرما، اے ہمارے رب! اور ہم پر اتنا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے رب! اور ہم پر اتنا بوجھ بھی نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں، اور ہم سے درگزر فرما، اور ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا کارساز ہے ہمیں کافر قوم پر غلبہ عطا فرما۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو انسان رات کو سورۃ البقرہ کی یہ دو آخری آیات پڑھ لے، صبح تک اسے ہر برائی سے حفاظت کے لیے کافی ہو جاتی ہیں۔

تینوں قل پڑھنا:

﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ﴾ ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾﴿ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾
ان کے پڑھنے کا وقت صبح فجر کی نماز کے بعد ، اور رات کے شروع میں یعنی نماز مغرب کے بعد ہے۔ اس کے علاوہ سوتے وقت اور ہر فرض نماز کے بعد ایک ایک بار ان کا وظیفہ کر لینا چاہیے۔
[البخاري: 5009]
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَٰهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ

ان کا ترجمہ گزر چکا ہے۔
حدیث میں ہے: جو انسان صبح وشام کو تین تین بار یہ سورتیں پڑھ لے، اس کے لیے ہر مصیبت اور آفت سے حفاظت کے لیے کافی ہو جاتی ہیں۔
[صحيح أبو داؤد: 5082، صحيح الترمذي: 3575]
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بیشک ان سورتوں سے کوئی بھی انسان بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ان سورتوں کو بد نظری ختم کرنے، جادو سے بچنے اور تمام آفات ومصائب سے حفاظت کرنے میں خاص تاثیر حاصل ہے۔
[بدائع الفوائد: 2/199]

صبح وشام کے اذکار کی باقاعدگی:

صبح وشام کے اذکار، فرض نمازوں کے بعد کے اذکار، سونے اور بیدار ہونے اور گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کے اذکار، بیت الخلاء میں جانے اور باہر نکلنے کی دعائیں، اور ان کے علاوہ دیگر دعائیں اور اذکار جادو کا اثر ہونے، بد نظر لگنے اور آسیب کی راہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ نیز اگر کسی انسان پر ان چیزوں کا اثر ہو گیا ہو تب بھی اس کا مؤثر ترین علاج یہی اذکار ہیں۔
عزت مآب جناب علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ اذکار ودعائیں اس انسان کے لیے جادو وغیرہ کے شر اور دوسری برائیوں سے بچنے کے لیے بڑے اور اہم ترین اسباب میں سے ہیں جو صدق قلب اور ایمان کامل اور اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان اور شرح صدر کے ساتھ ان کو اپنا معمول بنالے۔ نیز جادو وغیرہ چل جانے کے بعد ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی یہ اہم ترین اسباب میں سے ایک ہیں۔
[مسلم: 2691]
❀ ایسے ہی یہ ورد:
لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
[مجموع فتاوى ومقالات متنوعة: 8/160]
اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے اور وہی تمام تعریفوں کا مالک ہے، اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔
جو انسان روزانہ سو بار یہ کلمہ پڑھ لے، تو اس کے لیے تمام دن شیطان کے شر کے سامنے ڈھال بن جاتا ہے۔

ایسے ہی کثرت کے ساتھ یہ ورد:

أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ
[مسلم: 2708]
میں اللہ کے مکمل کلمات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں، اس کی مخلوق کے شر سے۔
جو کوئی کسی ٹھکانے پر پڑاؤ ڈالے، کسی گھر میں، دیہات، جنگل میں، یا سمندر اور فضا میں سفر کے دوران یہ کلمات کہے اسے کوئی چیز تکلیف نہیں دے سکتی یہاں تک کہ وہ اپنے اس ٹھکانے سے کوچ کر لے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو انسان کسی جگہ پڑاؤ ڈالے اور پھر تین بار یہ کلمات کہے:
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ
میں اللہ کے مکمل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں اس کی مخلوق کے شر سے۔
اسے کوئی چیز تکلیف نہیں دے سکتی یہاں تک کہ وہ اپنے اس ٹھکانے سے کوچ کر لے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو انسان رات کے وقت یہ کلمات تین بار کہہ دے، اس انسان کو اس رات میں کوئی زہریلی چیز نقصان نہیں دے سکے گی۔

6۔ ممکن ہو تو صبح نہار منہ سات کھجور کھانا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس انسان نے سات عجوہ کھجوریں کھا کر صبح کی، اس پر سارا دن جادو یا زہر اثر نہیں کرے گا۔
[صحيح البخاري (5769)، صحيح مسلم (2047)]
حضرت علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ:
مدینہ طیبہ کی تمام کھجوروں میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے۔ کیونکہ دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
جو انسان صبح کے وقت اس وادی کی سات کھجوریں کھائے۔
[مسلم 2048]
نیز آپ کا خیال یہ بھی ہے کہ:
مدینہ کے علاوہ دیگر علاقوں کی سات کھجوریں کھانے پر بھی اللہ تعالیٰ سے اس فائدہ کی امید کی جا سکتی ہے۔
[مجموع فتاوى ومقالات متنوعة (277/3)]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میرے گھر والوں نے یہ کلمات سیکھ لیے تھے۔ اور وہ یہ کلمات کہا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک باندی کو کسی چیز نے ڈس لیا، مگر اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔

7۔ صدقہ و خیرات، نیکی کے کام اور لوگوں کی مدد کرنا:

جادو اور دیگر برائیوں اور شر و فساد سے بچنے کے بڑے اور اہم ترین وسائل اور علاج میں سے ایک صدقہ و خیرات کرنا، فقراء اور محتاج لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا اور ان کے کام آنا ہے۔ اس میں بہت سارے شر و فساد سے دفاع اور مصائب و آلام کی تخفیف ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خفیہ صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کی آگ کو بجھا دیتا ہے۔
[الطبراني المعجم الصغير ص 214، والأوسط 193/1، الصحيحة 1908، صحيح الجامع 3760]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
بھلائی اور نیکی کے کام کرنا، برائی کی راہوں اور آفات اور ہلاکت خیز امور سے بچا لیتے ہیں۔
[ أخرجه الحاكم 568/3، صحيح الجامع 3795]
اسی وجہ سے صدقہ کرنے کو بھی علاج کی ایک قسم ہی سمجھا جاتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
صدقہ سے اپنے مریضوں کا علاج کرو۔
[ رواه الطبراني والبيهقي، صحيح الجامع 3358]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے