حضرت جابر بن سمرۃؓ کی مشہور روایت میں الفاظ ہیں:
«كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ»
یعنی: “گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں۔”
یہ روایت بعض کوفی فقہاء (خصوصاً احناف) نے رکوع سے پہلے اور بعد رفع الیدین کی نفی پر دلیل کے طور پر پیش کی۔ مگر یہ سراسر غلط استدلال ہے۔
اس مضمون میں ہم درج ذیل اُمور کو واضح کریں گے:
① جمہور محدثین نے اس روایت کو تشہد کے بعد سلام کے وقت ہاتھوں کے اشارہ سے متعلق قرار دیا ہے، نہ کہ رکوع میں رفع الیدین سے۔
② تقریباً 30 محدثین اور 5 احناف کے علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ اس حدیث کا تعلق صرف سلام کے وقت ہاتھوں کی حرکت سے ہے۔
③ جو شخص اس سے رکوع یا قیام میں رفع الیدین کی نفی پر قیاس کرتا ہے، وہ سراسر جہالتِ مطلقہ کا مظاہرہ کرتا ہے۔
④ مضمون میں محدثینِ کرام کے متون اصل عربی عبارت کے ساتھ ذکر کیے جائیں گے اور ساتھ ان کا اردو ترجمہ دیا جائے گا تاکہ بات مکمل طور پر واضح ہو۔
امام بخاریؒ اور ابتدائی محدثین کی وضاحت
① امام بخاری (م 256ھ):
النص:
…دخل علينا النبي ﷺ ونحن رافعو أيدينا في الصلاة فقال: ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا في الصلاة، فإنما كان هذا في التشهد لا في القيام…
(قرة العينين برفع اليدين في الصلاة، ص 35)
📌 ترجمہ:
نبی ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم نماز میں ہاتھ اٹھا رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
“مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں اپنے ہاتھ شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح ہلاتے دیکھ رہا ہوں؟ نماز میں سکون اختیار کرو۔ یہ معاملہ تو صرف تشہد (سلام کے وقت) میں تھا، قیام کے وقت نہیں۔”
➥ امام بخاریؒ کی تصریح:
-
یہ حدیث صرف تشہد میں سلام کے وقت ہاتھوں کے اشارہ کے بارے میں ہے۔
-
رکوع یا قیام میں رفع الیدین کی ممانعت اس سے مراد نہیں۔
-
اگر واقعی یہ رفع الیدین کی ممانعت ہوتی تو پھر تکبیرِ اولیٰ اور عیدین کی تکبیرات بھی اس میں شامل ہوتیں، کیونکہ ان کا استثناء ذکر نہیں ہوا۔
② حافظ ابن حجر عسقلانی (م 852ھ):
حافظ ابن حجرؒ نے امام بخاریؒ کے اس قول کو جزم کے صیغے سے نقل کیا اور اس پر اعتماد کیا۔
(فتح الباري 2/224)
③ امام ابن حبان (م 354ھ):
النص:
…إنما أُمروا بالسكون عند الإشارة بالتسليم دون رفع اليدين عند الركوع…
(صحيح ابن حبان، رقم 1879)
📌 ترجمہ:
ابن حبانؒ نے فرمایا:
اس روایت میں لوگوں کو نماز میں سکون اختیار کرنے کا حکم اس وقت دیا گیا جب وہ سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے، نہ کہ رکوع میں رفع الیدین کے بارے میں۔
④ امام ابن عبدالبر المالکی (م 463ھ):
النص:
…وَهَذَا لَا حُجَّةَ فِيهِ لِأَنَّ الَّذِي نَهَاهُمْ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ غَيْرُ الَّذِي كَانَ يَفْعَلُهُ، لِأَنَّهُ مُحَالٌ أَنْ يَنْهَاهُمْ عَمَّا سَنَّ لَهُمْ، وَإِنَّمَا رَأَى أَقْوَامًا يَعْبَثُونَ بِأَيْدِيهِمْ فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ…
(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد)
📌 ترجمہ:
بعض متاخر کوفیوں نے اس حدیث سے رفع الیدین کے ترک پر استدلال کیا، مگر یہ استدلال باطل ہے۔ نبی ﷺ نے انہیں اس فعل سے روکا جو آپ نے خود نہیں کیا۔ کیونکہ یہ محال ہے کہ آپ ﷺ ان کو اس عمل سے روکیں جسے آپ نے خود سنت کے طور پر مقرر کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ ہاتھوں سے کھیل کرتے تھے اور غیر محل میں ہاتھ اُٹھاتے تھے، تو آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا۔
⑤ امام نووی الشافعی (م 676ھ):
النص:
…وَأَمَّا حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ فَاحْتِجَاجُهُمْ بِهِ مِنْ أَعْجَبِ الْأَشْيَاءِ وَأَقْبَحِ أَنْوَاعِ الْجَهَالَةِ… لِأَنَّهُ إِنَّمَا وَرَدَ فِي السَّلَامِ لَا فِي الرُّكُوعِ وَالرَّفْعِ مِنْهُ…
(المجموع شرح المهذب)
📌 ترجمہ:
جابر بن سمرہؓ کی حدیث سے حنفیہ کا استدلال عجیب ترین اور سنت سے جہالت کی بدترین قسم ہے۔ کیونکہ یہ حدیث صرف سلام کے وقت ہاتھ اٹھانے کے بارے میں ہے، رکوع اور اس سے اٹھنے کے بارے میں نہیں۔
⑥ ابن سید الناس (م 734ھ):
النص:
…وأما حديث جابر بن سمرة فلا تعلق له برفع اليدين في التكبير، ولكنه ذكر للرد على قوم كانوا يرفعون أيديهم في حالة السلام…
(النفح الشذي في شرح جامع الترمذي)
📌 ترجمہ:
جابر بن سمرہؓ کی حدیث کا تکبیر کے وقت رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ ان لوگوں کے رد میں ہے جو سلام کے وقت ہاتھ اُٹھاتے تھے اور اپنے پہلو کے ساتھیوں کو اشارہ کرتے تھے۔
⑦ ابن الملقن المصری (م 804ھ):
النص:
…فجعْله مُعَارضا لما قدمْنَاهُ من أقبح الجهالات… وإنما كانوا يرفعون أيديهم في حالة السلام من الصلاة…
(البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار)
📌 ترجمہ:
اس حدیث کو رفع الیدین کی نفی میں پیش کرنا انتہائی بدترین جہالت ہے۔ یہ حدیث صرف سلام کے وقت ہاتھوں کے اشارہ سے متعلق ہے، نہ کہ رکوع میں رفع الیدین سے۔
⑧ حافظ ابن حجر عسقلانی (م 852ھ):
النص:
ولا دليل فيه على منع الرفع على الهيئة المخصوصة في الموضع المخصوص، وهو الركوع والرفع منه، لأنه مختصر من حديث طويل.
(التلخيص الحبير 1/224)
📌 ترجمہ:
اس حدیث میں رکوع یا اس سے اٹھنے والے رفع الیدین کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں، کیونکہ یہ دراصل ایک طویل حدیث کا اختصار ہے۔
⑨ ابن أبي العز الحنفی (م 793ھ):
النص:
…فإن الأمر بالسكون ليس المراد منه ترك الحركة في الصلاة مطلقًا، بل الحركة المنافية للصلاة… فعُلم أن المراد منه الإشارة بالسلام باليد.
(التنبيه على مشكلات الهداية)
📌 ترجمہ:
نماز میں سکون کا حکم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر حرکت ممنوع ہے، بلکہ وہ حرکت جو نماز کے منافی ہو۔ رکوع، سجود اور تکبیرات تو خود مشروع ہیں۔ پس یہ واضح ہے کہ اس حدیث سے مراد صرف سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ ہے۔
⑩ ابن الجوزی (م 597ھ):
النص:
…وقد احتج بعض أصحاب أبي حنيفة بهذا الحديث في منعهم رفع اليدين في الركوع وعند الرفع منه، وليس لهم فيه حجة؛ لأنه قد روي مفسرًا…
(كشف المشكل من حديث الصحيحين)
📌 ترجمہ:
بعض احناف نے اس حدیث سے رکوع سے پہلے اور بعد رفع الیدین کی نفی پر دلیل پکڑی، لیکن ان کے لئے اس میں کوئی حجت نہیں، کیونکہ یہ حدیث دیگر روایات میں مفسر آئی ہے کہ یہ معاملہ سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کرنے کے بارے میں تھا۔
⑪ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م 728ھ):
النص:
…ومن ظن أن نهيه عن رفع الأيدي هو النهي عن رفعها حين الركوع وحين الرفع منه وحمله على ذلك فقد غلط.
(مجموع الفتاوى 22/453)
📌 ترجمہ:
جو یہ گمان کرتا ہے کہ اس حدیث میں رکوع اور اس سے اٹھنے والے رفع الیدین کی ممانعت ہے، اس نے خطا کی ہے۔
⑫ امام قرطبی (م 656ھ):
النص:
…كانوا يشيرون عند السلام من الصلاة بأيديهم يمينًا وشمالًا، وتشبيه أيديهم بأذناب الخيل الشُّمس تشبيه واقع؛ فإنها تحرك أذنابها يمينًا وشمالًا، فلما رآهم على تلك الحالة أمرهم بالسكون في الصلاة…
(المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم 2/404)
📌 ترجمہ:
صحابہؓ سلام کے وقت اپنے ہاتھوں سے دائیں بائیں اشارہ کرتے تھے۔ نبی ﷺ نے اس کو شریر گھوڑوں کی دم سے تشبیہ دی اور اس حالت کو دیکھ کر انہیں سکون اختیار کرنے کا حکم دیا۔ یہ رکوع میں رفع الیدین سے متعلق نہیں ہے۔
⑬ مغلطائی الحنفی (م 762ھ):
النص:
…وأما استدلال بعض الحنفية بحديث جابر بن سمرة… فليس بصحيح؛ لأنهم إنما كان ذلك حالة السلام كما ذكره البخاري وغيره.
(شرح سنن ابن ماجه)
📌 ترجمہ:
بعض احناف کا اس حدیث سے استدلال درست نہیں، کیونکہ جیسا کہ امام بخاریؒ اور دیگر نے ذکر کیا، یہ صرف سلام کے وقت کے بارے میں ہے۔
⑭ امام طحاوی (م 321ھ):
النص:
…أما يكفي أحدكم إذا جلس في الصلاة أن يضع يده على فخذه ويشير بأصبعه ويقول السلام عليكم؟…
(شرح معاني الآثار 1/1603)
📌 ترجمہ:
کیا تمہارے لئے کافی نہیں کہ نماز میں بیٹھ کر اپنی ران پر ہاتھ رکھو اور صرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہو: السلام علیکم؟ (یعنی ہاتھ ہلانے کی بجائے صرف قولی سلام کرو)۔
⑮ امام ابو داود (م 275ھ):
باب في السلام
النص:
…فقال: ما بال أحدكم يومي بيده كأنها أذناب خيل شمس؟ إنما يكفي أحدكم…
(سنن أبي داود، رقم 998)
📌 ترجمہ:
آپ ﷺ نے فرمایا: “تم اپنے ہاتھوں سے اشارہ کیوں کرتے ہو گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ تمہارے لئے کافی ہے کہ زبان سے سلام کہو۔”
⑯ امام نسائی (م 303ھ):
باب السلام بالأيدي في الصلاة
النص:
…فقال: ما بال هؤلاء يسلمون بأيديهم كأنها أذناب خيل شمس؟ أما يكفي أحدهم أن يضع يده على فخذه ثم يقول: السلام عليكم؟…
(سنن النسائي 1185)
📌 ترجمہ:
آپ ﷺ نے فرمایا: “یہ لوگ ہاتھوں سے سلام کیوں کرتے ہیں گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ کیا یہ کافی نہیں کہ ہاتھ ران پر رکھے اور زبان سے کہے: السلام علیکم؟”
⑰ امام ابن خزیمہ (م 311ھ):
باب الزجر عن الإشارة باليد يمينًا وشمالًا عند السلام
النص:
…فقال رسول الله ﷺ: ما لي أرى أيديكم كأنها أذناب خيل شمس، ليسكن أحدكم في الصلاة…
(صحيح ابن خزيمة، رقم 733)
📌 ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “مجھے کیا ہے کہ میں تمہارے ہاتھوں کو دیکھ رہا ہوں گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ تم میں سے ہر ایک کو نماز میں سکون اختیار کرنا چاہئے۔” یہ سلام کے وقت ہاتھوں سے اشارہ کرنے کی ممانعت پر دلیل ہے۔
⑱ امام عبدالرزاق الصنعانی (م 211ھ):
باب التسليم
النص:
…فقال: ما بال أقوام يلقون أيديهم كأنها أذناب خيل شمس، ألا يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه ثم يسلم على أخيه…
(المصنف لعبدالرزاق، رقم 3135)
📌 ترجمہ:
آپ ﷺ نے فرمایا: “یہ لوگ اپنے ہاتھوں کو کیوں ہلاتے ہیں گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ کیا ان کے لئے کافی نہیں کہ اپنی ران پر ہاتھ رکھیں اور پھر دائیں بائیں سلام کہیں؟”
⑲ امام ابو عوانہ الاسفرائینی (م 316ھ):
النص:
…مالي أراكم رافعي أيديكم في الصلاة كأنها أذناب خيل شمس، اسكنوا في الصلاة…
(مستخرج أبي عوانة، رقم 1552)
📌 ترجمہ:
آپ ﷺ نے فرمایا: “مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں نماز میں ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ نماز میں سکون اختیار کرو۔”
➥ ابو عوانہ نے اس روایت کو سلام میں دونوں سلام کے وجوب پر دلیل بنایا۔
⑳ امام بیہقی (م 458ھ):
باب كراهية الإيماء باليد عند التسليم من الصلاة
النص:
…فقال رسول الله ﷺ: ما شأنكم تشيرون بأيديكم كأنها أذناب خيل شمس، إذا سلّم أحدكم فليلتفت إلى صاحبه ولا يرمي بيده.
(السنن الكبرى للبيهقي، رقم 2997)
📌 ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “تم اپنے ہاتھوں سے کیوں اشارہ کرتے ہو گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ جب کوئی سلام کرے تو وہ اپنے ساتھی کی طرف منہ کرے، ہاتھ نہ ہلائے۔”
㉑ امام شافعی (م 204ھ):
النص:
…فَنَأْمُرُ كُلَّ مُصَلٍّ أَنْ يُسَلِّمَ تَسْلِيمَتَيْنِ إِمَامًا كَانَ أَوْ مَأْمُومًا أَوْ مُنْفَرِدًا…
(الأم للشافعي)
📌 ترجمہ:
ہم ہر نمازی کو حکم دیتے ہیں کہ وہ دو سلام کہے، خواہ امام ہو یا مقتدی یا منفرد۔
㉒ امام بغوی (م 516ھ):
باب التسليم في الصلاة
النص:
…فقال النبي ﷺ: ما بالكم ترمون بأيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ أما يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه ثم يسلم عن يمينه وشماله: السلام عليكم ورحمة الله.
(شرح السنة للبغوي، رقم 699)
📌 ترجمہ:
نبی ﷺ نے فرمایا: “تم اپنے ہاتھوں سے کیوں اشارے کرتے ہو گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ کیا تمہارے لئے کافی نہیں کہ اپنی ران پر ہاتھ رکھ کر زبان سے سلام کرو؟”
㉓ امام ابو نعیم الاصبهانی (م 430ھ):
باب الكراهية أن يضرب الرجل بيديه… في الصلاة
النص:
…مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس، اسكنوا في الصلاة.
(المستخرج على صحيح مسلم)
📌 ترجمہ:
آپ ﷺ نے فرمایا: “مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ نماز میں سکون اختیار کرو۔”
㉔ امام ابن ابی شیبہ (م 235ھ):
باب من كره رفع اليدين في الدعاء في الصلاة
النص:
…فقال: ما لي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس، اسكنوا في الصلاة.
(المصنف لابن أبي شيبة، رقم 8447)
📌 ترجمہ:
آپ ﷺ نے فرمایا: “مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں نماز میں ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ سکون اختیار کرو۔”
㉕ امام ابن رجب حنبلی (م 795ھ):
باب من لم يرد السلام على الإمام واكتفى بتسليم الصلاة
النص:
…وإنما يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه ثم يسلم على أخيه عن يمينه وشماله.
(فتح الباري لابن رجب)
📌 ترجمہ:
آپ ﷺ نے فرمایا: “تمہارے لئے کافی ہے کہ اپنی ران پر ہاتھ رکھو اور پھر اپنے بھائی کو دائیں بائیں سلام کہو۔”
㉖ امام متقی ہندی (م 975ھ):
باب منع الإشارة باليد وقت السلام
النص:
…ما بال الذين يرمون بأيديهم في الصلاة كأنها أذناب خيل شمس…
(كنز العمال، رقم 19881)
📌 ترجمہ:
آپ ﷺ نے فرمایا: “یہ لوگ نماز میں ہاتھوں کو کیوں ہلاتے ہیں گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟”
㉗ امام عبدالحق الاشبیلی (م 581ھ):
باب كيفية السلام من الصلاة وكم يسلم
النص:
…مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ وإنما يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه ثم يسلم على أخيه…
(الأحكام الشرعية الكبرى)
📌 ترجمہ:
آپ ﷺ نے فرمایا: “مجھے کیا ہے کہ میں تمہارے ہاتھوں کو دیکھ رہا ہوں گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ تمہارے لئے کافی ہے کہ ران پر ہاتھ رکھو اور پھر دائیں بائیں سلام کرو۔”
㉘ امام ابن حزم اندلسی (م 456ھ):
النص:
…مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا في الصلاة…
(المحلّى بالآثار 3/240)
📌 ترجمہ:
آپ ﷺ نے فرمایا: “مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں نماز میں ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ سکون اختیار کرو۔”
➥ ابن حزم نے کہا: یہ حدیث دو سلام (يمين و يسار) کے اثبات پر ہے، نہ کہ ایک سلام پر۔
㉙ امام محمد بن حسن الشیبانی (م 189ھ):
باب التشهد والسلام والصلاة على النبي ﷺ
النص:
…ما بال أقوام يؤمّون بأيديهم كأنها أذناب خيل شمس؟ أما يكفي أحدكم أن يضع يده على فخذه ثم يسلم.
(الحجة على أهل المدينة)
📌 ترجمہ:
آپ ﷺ نے فرمایا: “کیا بات ہے کہ لوگ اپنے ہاتھوں سے اشارے کرتے ہیں گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ تمہارے لئے کافی ہے کہ ران پر ہاتھ رکھو اور پھر سلام کرو۔”
㉚ قاضی عیاض (م 544ھ):
باب الأمر بالسكون في الصلاة والنهي عن الإشارة باليد ورفعها عند السلام
النص:
…مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا في الصلاة…
(إكمال المعلم بفوائد مسلم)
📌 ترجمہ:
آپ ﷺ نے فرمایا: “تم ہاتھ کیوں اٹھاتے ہو گویا یہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ نماز میں سکون اختیار کرو۔”
㉛ امام نورالدین السندی الحنفی (م 1138ھ):
حاشية السندي على النسائي
النص:
…وبهذه الرواية تبين أن الحديث مسوق للنهي عن رفع الأيدي عند السلام إشارة إلى الجانبين، ولا دلالة فيه على النهي عن الرفع عند الركوع والرفع منه.
📌 ترجمہ:
اس روایت سے واضح ہے کہ یہ حدیث صرف سلام کے وقت ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرنے کی ممانعت پر ہے، رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کی ممانعت پر اس میں کوئی دلیل نہیں۔
㉜ اکابر دیوبند (محمود الحسن، تقی عثمانی، اشرف علی تھانوی، عابد سندھی):
-
محمود الحسن دیوبندی: یہ حدیث صرف سلام کے وقت کی ہے۔ (الورد الشذي)
-
تقی عثمانی: اس سے رفع یدین کی نفی کرنا کمزور ہے، کیونکہ ابن القبطیہ کی روایت میں صراحت موجود ہے۔ (درس ترمذی)
-
اشرف علی تھانوی: اس سے مراد رفع یدین عند السلام ہے۔
-
عابد سندھی الحنفی: رفع یدین کی نفی پر اس حدیث سے استدلال مناسب نہیں۔
✦ خلاصہ و نتیجہ ✦
① جابر بن سمرہؓ کی روایت «كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ» کا تعلق صرف تشہد کے بعد سلام پھیرنے کے وقت ہاتھ سے اشارہ کرنے سے ہے۔
② اس حدیث کو رکوع میں رفع یدین کی ممانعت پر لینا سنت سے جہالت اور جمہور محدثین کے خلاف ہے۔
③ 30 محدثین (بخاری، مسلم، ابن عبدالبر، نووی، ابن تیمیہ، بیہقی، شافعی، ابن حجر وغیرہ) اور حتیٰ کہ 5 حنفی اکابر (طحاوی، مغلطائی، سندھی، تقی عثمانی، تھانوی) نے وضاحت کی ہے کہ یہ حدیث رکوع میں رفع یدین سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔
④ لہٰذا اس حدیث کو ترکِ رفع یدین پر پیش کرنا باطل استدلال ہے اور جمہور اہل علم کے اجماع کے خلاف ہے۔



































