سوال
وہ کون سے عذر ہیں جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روزہ چھوڑنے کی جائز وجوہات درج ذیل ہیں:
➊ مرض اور سفر
یہ دونوں اہم عذر ہیں جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
"فمن کان منکم مریضا أو علی سفر فعدة من أیام أخر” (سورة البقرة: 184)
➋ حمل کی حالت
* اگر عورت حاملہ ہے اور روزہ رکھنے کی صورت میں اُسے یا اس کے بچے کو خطرہ لاحق ہو، تو روزہ چھوڑنا جائز ہے۔
➌ دودھ پلانے والی عورت
* ایسی عورت جو بچے کو دودھ پلاتی ہے اور روزہ رکھنے کی صورت میں اُس کو یا بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو اس کے لیے بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے۔
➍ کسی معصوم کی جان بچانا
* اگر کوئی شخص کسی معصوم کی جان بچانے پر مجبور ہو، جیسے:
◈ دریا میں ڈوبتے شخص کو بچانا۔
◈ کسی جلتی عمارت میں پھنسے ہوئے شخص کو نکالنا۔
* ایسی صورت میں روزہ توڑنا جائز ہے، کیونکہ وہ ایک معصوم کی جان بچانے کے لیے مجبور ہوا۔
➎ جہاد فی سبیل اللہ
* قوت اور طاقت برقرار رکھنے کی خاطر بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے۔
* جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا:
«إِنَّکُم لاقواالعدوغدا،والفطرأقوی لکم فأفطرواْ» (صحيح مسلم، الصيام، باب اجر المفطر فی السفر اذا تولی العمل، ح: ۱۱۲۰)
"تم لوگ کل دشمن سے برسرپیکار ہوگے لہٰذا روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے موجب قوت ہے۔”
روزہ چھوڑنے کے بعد دن کے باقی حصے میں کیا حکم ہے؟
* اگر کوئی شخص جائز عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑ دے، تو دن کے باقی حصے میں اس کے لیے کھانے پینے وغیرہ سے رکنا واجب نہیں ہوتا۔
* مثال:
◈ کسی معصوم کو ہلاکت سے بچانے کے لیے روزہ توڑا گیا۔
◈ مریض دن کے وقت صحت یاب ہو جائے۔
◈ حائضہ دن کے دوران پاک ہو جائے۔
* ان سب صورتوں میں ان کے لیے دن کے باقی حصے میں کھانا پینا ترک کرنا لازم نہیں ہے، کیونکہ شریعت نے ان کے لیے روزہ توڑ دینا جائز قرار دیا ہے۔
روزہ چھوڑنے کے باوجود دن میں کھانے پینے کی ممانعت کا استثنا
* اگر دن کے وقت کسی کو معلوم ہو جائے کہ آج ماہ رمضان کا آغاز ہو چکا ہے، تو پھر اس دن کے باقی حصے میں کھانے پینے سے رکنا لازم ہے۔
* اس لیے ان دونوں صورتوں میں فرق ہے:
◈ جائز عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑنے والے کے لیے کھانے پینے سے رکنا لازم نہیں۔
◈ جبکہ رمضان کا علم بعد میں ہونے پر باقی دن کھانا پینا ترک کرنا لازم ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب