جائز طریقے سے میت پر رونے کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

میت پر رونے کی جائز صورت

میت پر رونا اس صورت میں جائز ہے کہ جب اس میں نوحہ کی کوئی آمیزش نہ ہو۔
(البانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[أحكام الجنائز: ص/ 31]
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی پھوپھی فاطمہ سے ان کے (یعنی جابر رضی اللہ عنہ کے ) والد کے متعلق کہا کہ :
تبكين أو لا تبكين
”آپ روئیں یا نہ روئیں ۔“
فرشتوں نے تو اس پر اپنے پروں سے سایہ کیا ہوا تھا تا وقتیکہ آپ نے اسے اٹھا لیا۔
[بخاري: 1244 ، كتاب الجنائز: باب الدخول على الميت بعد الموت ، مسلم: 2471]
➋ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی ایک بیٹی کے بچے کو موت و حیات کی کشمکش میں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ پھر سعد رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس (رونے ) کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
هذه رحمة جعلها الله فى قلوب عباده وإنما يرحم الله من عباده الرحماء
”یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کیا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ان پر ہی رحم فرماتے ہیں جو لوگ خود رحم کرنے والے ہیں ۔“
[بخاري: 1284 ، كتاب الجنائز: باب قول النبى يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه ، مسلم: 923 ، أحمد: 204/5 ، أبو داود: 3152 ، ابن ماجة: 1588]
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو حالت مرض میں (بے ہوش پڑے) دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے ۔
[بخارى: 1304 ، كتاب الجنائز: البكاء عند المريض]
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی کی تدفین کے موقع پر رو پڑے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فرأيت عينيه تدمعان
”میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں کو آنسو بہاتے ہوئے دیکھا۔“
[بخاري: 1285 ، كتاب الجنائز: باب قول النبى يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه]
➎ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر روئے ۔
[بخاري: 89/3 ، نسائي: 260/1 ، بيهقى: 406/3 ، ابن حبان: 2155]
➏ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں روئے۔
[أحمد: 141/6]
ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ میت پر رونا جائز ہے تاہم بعض روایات میں یہ ذکر ہے کہ رونے کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے جیسا کہ چند حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من نيح عليه يعذب بما نيح عليه
”جس پر نوحہ کیا گیا اسے نوحہ کرنے والوں کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا۔“
[بخاري: 1291 ، كتاب الجنائز: باب ما يكره من النياحة على الميت ، مسلم: 933]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه
”بيشك میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔“
[بخاري: 1286 ، كتاب الجنائز: باب قول النبى يعذب الميت يبعض بكاء أهله عليه ، مسلم: 928 ، عبد الرزاق: 6675 ، مسند شافعي: 18/4 ، ابن حبان: 3136 ، بيهقي: 73/4 ، نسائي: 18/4 ، شرح السنة: 290/3]
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
يعض بكاء أهله عليه
”میت پر اس کے گھر والوں کے کچھ رونے سے عذاب ہوتا ہے۔“
[بخاري: 1287 ، مسلم: 927 ، ترمذي: 1002]
ان احادیث میں یہ اشکال و اعتراض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى
”کوئی کسی کے گناہ کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ۔ “
جبکہ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کے رونے سے میت عذاب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔
علمائے کرام نے اس اشکال کو مختلف طریقوں سے حل کیا ہے مثلاً اگر مرنے والا خود نوحہ کرتا ہوا ور گھر والوں کو اس سے نہ روکتا ہو بلکہ اسے برقرار رکھتا ہو ، یا اپنی میت پر نوحہ کرنے کی وصیت کر کے گیا ہو تب اسے عذاب ہو گا ورنہ نہیں ۔
[تفصيل كے ليے ديكهيے: فتح الباري: 500/3 ، نيل الأوطار: 54/3 ، معالم السنن: 303/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1