ثقہ راوی کی زیادت، مخالفت اور شذوذ کی شرعی وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد ۲، صفحہ ۲۹۶

سوال:

کیا ثقہ راوی کی زیادت، ذکر نہ کرنے والے ثقہ راویوں کی مخالفت شمار ہوتی ہے؟

مولانا ارشاد الحق اثری صاحب فرماتے ہیں:

’’لہٰذا جب سلیمانؒ کے برعکس شعبہؒ، ہشامؒ، معمرؒ وغیرہ جو اس سے زیادہ ثقہ اور ثبت ہیں۔ اس زیادت کو ذکر نہیں کرتے تو یہ روایت شاذ ہوئی جب کہ شاذ کی تعریف یہی ہے کہ جس میں ثقہ اوثق کی مخالفت کرے……‘‘
(توضیح الکلام، طبع جدید، ص ۶۶۷)

اس بیان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک راوی کسی چیز کا ذکر کرے اور دیگر ثقہ راوی اس کا ذکر نہ کریں تو یہ ذکر مخالفت تصور ہوگا۔

سوال کا مقصد:

  • کیا ایک ثقہ راوی کا کسی چیز کا اضافہ کرنا، دوسرے ثقہ راویوں کے نہ ذکر کرنے کے برابر مخالفت کہلائے گا؟
  • مخالفت کی تعریف شاذ کی تعریف میں کیا ہے؟
  • ثقہ راوی کی زیادت کب مقبول ہوتی ہے اور کب شاذ شمار کی جاتی ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کا یہ موقف درست نہیں کہ صرف کسی زیادت کا ذکر نہ کرنا مخالفت کے دائرے میں آتا ہے۔

🔹 مخالفت کی اصل صورت:

  • مخالفت صرف اس صورت میں شمار ہوتی ہے جب ایک ثقہ راوی دوسرے کئی ثقہ یا اوثق راویوں کے صریح بیان کے برخلاف روایت کرے۔
  • محض کسی چیز کا ذکر نہ کرنا مخالفت نہیں ہے۔

اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (۱۸۲/۱ بتعلیق الألبانی)

🔹 مثال:

  • ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشہد میں شہادت کی انگلی ہلاتے تھے۔
  • ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ انگلی نہیں ہلاتے تھے۔
  • یہ دوسری روایت محمد بن عجلان کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
  • نیز، یہ صحیح روایت کے خلاف ہونے کی وجہ سے شاذ یا منکر بھی ہے۔

🔹 اہم نکتہ:

اگر ثقہ راوی کی بیان کردہ زیادت کو محض اس لیے شاذ قرار دیا جائے کہ دوسرے ثقہ راویوں نے وہ ذکر نہیں کیا، تو اس سے کئی صحیح احادیث کی تردید لازم آتی ہے، جو کہ درست نہیں۔

تنبیہ بلیغ:

صحیح مسلم کی روایت:

  • سلیمان التیمی رحمہ اللہ کی روایت ہے:

«واذا قرا فانصتوا»
"اور جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش ہو جاؤ۔”

یہ حدیث صحیح اور محفوظ ہے۔

بعض ائمہ کی جانب سے اس حدیث کو ضعیف یا معلول کہنا:

یہ رائے درست نہیں۔
صحیح مسلم کی احادیث کو ضعیف یا شاذ کہنا جائز نہیں۔

بعض افراد کا اس حدیث سے "فاتحہ خلف الامام” کے خلاف استدلال کرنا دو وجوہات سے غلط ہے:

  • حنفی اصول کی روشنی میں یہ حدیث منسوخ ہے،
    کیونکہ اس کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فاتحہ خلف الامام کا فتویٰ دیا ہے۔
  • یہ حدیث "ما عدا الفاتحہ” یعنی فاتحہ کے علاوہ قراءت پر محمول کی گئی ہے،
    کیونکہ فاتحہ خلف الامام کی تخصیص دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

اصول فقہ میں یہ مسلم قاعدہ ہے:
"خاص، عام پر مقدم ہوتا ہے اور اس کی تخصیص کرتا ہے۔”

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1