سوال
کیا تین وتر پڑھتے وقت درمیانی تشہد پڑھا جائے یا نہ پڑھا جائے؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
تین رکعت وتر رسول اللہ ﷺ سے معتبر سندوں کے ساتھ دو طریقوں سے ثابت ہیں:
پہلا طریقہ: تین رکعت ایک ہی تشہد کے ساتھ
◄ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
وَعَن عَائشة قَالتْ كَان رسول اللہﷺ يوترُ بثلاثٍ لا يفصلُ بينَهن۔
(رواہ احمد والنسائی … نیل الأوطار: ج۳، ص۲۵)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تین رکعت وتر نماز پڑھتے اور اخیر کے تشہد کے علاوہ درمیان میں کہیں نہ بیٹھتے۔‘‘
◄ اسی طرح ایک اور روایت:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ … إِلَّا فِي آخِرِهن»
(متفق … نیل الاوطار ج۳، ص۳۶)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھتے تھے جن میں پانچ وتر ہوتے، اور ان پانچوں کو ایک ہی تشہد کے ساتھ ادا فرماتے۔‘‘
دوسرا طریقہ: دو رکعت کے بعد سلام اور ایک رکعت الگ
◄ اس طریقے کو امام احمد نے قوی کہا ہے۔ ابن حبان، ابن سکن اور طبرانی نے بھی روایت کیا ہے۔
(فتاوی علمائے حدیث: ص۲۳۹، ج۴)
◄ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل:
وَعن ابن عمر انه کان یسلم بین الرکعة والرکعتین فی الوتر حتی کان یأمر ببعض حاجته۔
(صحیح البخاری: باب ما جاء فی الوتر ج۱، ص۱۳۵)
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیتے اور پھر وتر کی ایک رکعت علیحدہ پڑھتے، یہاں تک کہ کسی کام کا حکم بھی دے دیتے اور پھر وتر پڑھتے۔‘‘
◄ مزید وضاحت:
وَعن ابن عمر انه کان یسلم بین الرکعة والرکعتین فی الوتر حتی یأمر ببعض حاجته۔
(اسناد قوی، نیل الاوطار: ج۳۳، ص۳۳)
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما پہلے شفع کو سلام کے ساتھ ادا کرتے اور وتر کو الگ پڑھتے اور فرمایا کرتے کہ رسول اللہ ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔‘‘
دونوں طریقے ثابت ہیں
ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ:
◄ تین وتر ایک ہی تشہد کے ساتھ بھی جائز ہیں۔
◄ یا دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر ایک رکعت الگ پڑھنا بھی درست ہے۔
احناف کا طریقہ اور اس پر تنقید
◄ احناف تین وتر کو دو تشہد کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
◄ یہ طریقہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
اس کے خلاف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث موجود ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ … وَلَا تَشَبَّهُوا بِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ
(رواہ الدارقطنی … نیل الاوطار: ج۳، ص۳۵-۳۶)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین وتر نہ پڑھو، پانچ یا سات پڑھو اور مغرب کی نماز سے مشابہت نہ کرو۔‘‘
* اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تین وتر کو مغرب کی طرح دو تشہد کے ساتھ نہ پڑھا جائے تاکہ فرض نماز کی مشابہت نہ ہو۔
(فتح الباری)
کیا ایک رکعت وتر بھی جائز ہے؟
جی ہاں، ایک رکعت وتر بھی جائز ہے۔
◄ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت:
عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ … وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ الاخ
(ترمذی: ص۸۶ ج۱، تحفة الاحوذی: ص۳۴۰ ج۱)
◄ ائمہ اربعہ (مالکؒ، شافعیؒ، احمدؒ، اسحاقؒ) کے نزدیک بھی ایک رکعت وتر جائز ہے، البتہ وہ اس سے پہلے دو نفل پڑھنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔
◄ اہل حدیث کے نزدیک ایک رکعت وتر دو رکعت نفل کے بغیر بھی پڑھنا جائز ہے۔
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ … وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْيَفْعَلْ
(عون المعبود: ص۵۳۵ ج۱)
’’وتر ہر مسلمان پر لازم ہے، جو پانچ پڑھنا چاہے پڑھے، جو تین پڑھے پڑھے اور جو ایک پڑھے وہ بھی جائز ہے۔‘‘
◄ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو موقوف کہا ہے لیکن مرفوع کے حکم میں بتایا ہے کیونکہ رکعات وتر میں اجتہاد کی گنجائش نہیں۔
مزید روایات
◄ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
عَنْ عَائِشَةَ … فَأَوْتَرَتْ
(صحیح مسلم مع نووی: ص۲۵۵ ج۱)
’’رسول اللہ ﷺ رات کو قیام فرماتے، جب وتر باقی رہ جاتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیدار کرتے اور وہ وتر پڑھتیں۔‘‘
◄ امام خطابی کا قول:
ذَهَبَ جَمَاعَةٌ مِنَ السَّلَفِ … وَغیرھم
(عون المعبود: ۵۲۲ ج۱)
’’سلف کی ایک جماعت ایک رکعت وتر کی قائل ہے، جن میں حضرت عثمان، سعد بن ابی وقاص، زید بن ثابت، ابو موسیٰ، ابن عباس، عائشہ اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔‘‘
◄ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مذہب تھا۔
خلاصہ
◄ تین وتر دونوں طرح پڑھنا جائز ہے:
➊ ایک تشہد کے ساتھ۔
➋ یا دو کے بعد سلام اور ایک الگ۔
◄ تین وتر کو مغرب کی طرح دو تشہد کے ساتھ پڑھنا ثابت نہیں۔
◄ ایک وتر بھی پڑھنا جائز اور صحیح ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔