سوال
سائل:
مشتاق احمد ولد حاجی خان محمد قوم کھرل، چک نمبر 352، تحصیل جڑانوالہ، ضلع فیصل آباد
تفصیلِ مسئلہ:
میں، مسمی مشتاق احمد، علمائے دین کی خدمت میں ایک شرعی مسئلہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مسماۃ جنت بی بی دختر شیر محمد مرحوم قوم ناگی، سکونت موضع پتلے چک نمبر 356، تحصیل جڑانوالہ، ضلع فیصل آباد کا نکاح تقریباً نو سال قبل مسمی مہابت علی ولد وسایا قوم ناگی، موضع 354 روڑی، تحصیل جڑانوالہ، ضلع فیصل آباد سے کیا گیا۔
جنت بی بی اپنے شوہر کے ساتھ رہ کر حقِ زوجیت ادا کرتی رہی، مگر کچھ عرصے بعد دونوں کے درمیان ناچاقی پیدا ہوگئی کیونکہ مہابت علی آوارہ مزاج اور لڑاکا طبیعت کا آدمی تھا۔ برادری کے لوگوں نے بارہا صلح کی کوشش کی، لیکن اس نے کسی کی بات نہ مانی۔ آخرکار اس نے اپنی بیوی کو گھر سے دھکے دے کر نکال دیا اور زبانی طور پر تین مرتبہ "طلاق، طلاق، طلاق” کہہ کر طلاق دے دی۔ اس کے بعد اس نے گھر کے دروازے بند کر دیے اور الٹا بیوی پر بدچلنی کا الزام لگا دیا۔
اب تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور جنت بی بی اپنے والد کے گھر رہ کر محنت مزدوری سے اپنا گزر بسر کرتی ہے۔ اس کا ایک چھوٹا بھائی ہے جس کی عمر تقریباً 11 سال ہے اور وہ اس کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ کوئی سرپرست موجود نہیں۔
سوال:
شرعی طور پر مجھے اب کیا کرنا چاہیے، جب میرے شوہر نے تین بار "طلاق” کہہ کر مجھے گھر سے نکال دیا؟
برائے کرم شرعی جواب عنایت فرمائیں تاکہ ہم عنداللہ ماجور ہوں۔
(سائلہ خود اپنی بات کی سچائی کی ذمہ دار ہے۔)
سائل:
مشتاق احمد و مسماۃ جنت بی بی، ساکن چک نمبر 356 گ ب
تصدیق
ہم اس بات کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں کہ مذکورہ سوال بالکل درست اور حقیقت پر مبنی ہے۔ اگر یہ غلط ثابت ہوا تو ہم خود ذمہ دار ہوں گے۔
لہٰذا مناسب ہے کہ اس پر شرعی فتویٰ دیا جائے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرطِ صحتِ سوال، مذکورہ صورتِ مسئلہ میں بلاشبہ طلاق واقع ہوچکی ہے۔ اس مسئلے میں علمائے اہلِ حدیث اور علمائے احناف کے درمیان طلاق کے وقوع پر کوئی اختلاف نہیں۔
البتہ اختلاف اس امر میں ہے کہ:
✿ علمائے احناف کے نزدیک اکٹھی تین طلاقیں تینوں واقع ہو جاتی ہیں اور یہ طلاق مغلظہ (بائنہ کبریٰ) شمار ہوتی ہے۔ اس صورت میں حلالہ کے بغیر رجوع ممکن نہیں۔
✿ علمائے اہلِ حدیث اور محققین علمائے شریعت کے نزدیک اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی ہیں، جس میں شوہر کو عدت کے دوران رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے، اور عدت گزرنے کے بعد بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح جائز ہوتا ہے۔
تاہم دونوں مکاتبِ فکر کے نزدیک طلاق واقع ہوچکی ہے۔
قرآنی دلائل
1. سورۃ البقرۃ، آیت 229
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ
(البقرة: 229)
ترجمہ:
(رجعی) طلاق دو بار تک ہے، پھر یا تو معروف طریقے سے روک کر رکھنا ہے یا بھلائی کے ساتھ رخصت کر دینا ہے۔
تفسیر ابن کثیر:
أَيْ: إِذَا طَلَّقْتَهَا وَاحِدَةً أَوِ اثْنَتَيْنِ، فَأَنْتَ مُخَيَّرٌ فِيهَا مَا دَامَتْ عِدَّتُهَا بَاقِيَةً، بَيْنَ أَنْ تَرُدَّهَا إِلَيْكَ نَاوِيًا الْإِصْلَاحَ بِهَا وَالْإِحْسَانَ إِلَيْهَا، وَبَيْنَ أَنْ تَتْرُكَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، فَتَبِينَ مِنْكَ. (1)
یعنی اگر بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی جائیں تو شوہر کو عدت کے دوران یہ اختیار حاصل ہے کہ نیک نیتی سے رجوع کرلے یا عدت گزرنے دے تاکہ نکاح ختم ہو جائے۔
اس سے واضح ہوا کہ عدت گزر جانے کے بعد نکاح ختم ہو جاتا ہے، چاہے طلاق رجعی ہو، پہلی ہو یا دوسری۔
2. سورۃ البقرۃ، آیت 228
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ…
(البقرة: 228)
ترجمہ:
اور مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض (تین پاکی) تک روکے رکھیں۔
تفسیر ابن کثیر:
هَذَا الْأَمْرُ مِنَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لِلْمُطَلَّقَاتِ الْمَدْخُولِ بِهِنَّ مِنْ ذَوَاتِ الْأَقْرَاءِ، بِأَنْ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ، أَيْ: بِأَنْ تَمْكُثَ إِحْدَاهُنَّ بَعْدَ طَلَاقِ زَوْجِهَا لَهَا ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ؛ ثُمَّ تَتَزَوَّجَ إِنَّ شَاءَتْ.
یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جن عورتوں سے صحبت ہوچکی ہو، وہ طلاق کے بعد تین حیض تک انتظار کریں، پھر چاہیں تو کسی اور سے نکاح کریں۔
اس سے بھی واضح ہوا کہ عدت ختم ہونے پر نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔
زبانی طلاق کے وقوع کا حکم
اگر شوہر نے زبانی طور پر تین طلاقیں دی ہیں تو طلاق بہرحال واقع ہو جاتی ہے۔
اس پر محدثین اور احناف دونوں متفق ہیں۔
فتاویٰ نذیریہ:
واضح ہو کہ جب شوہر شریعت کے مطابق اپنی زوجہ کو طلاق دے گا، زبانی دے یا تحریری، تو طلاق خواہ مخواہ پڑ جائے گی۔ طلاق کا واقع ہونا زوجہ کی منظوری پر موقوف نہیں۔ (1)
مفتی محمد شفیع (حنفی) کراچی بھی زبانی طلاق کے وقوع کے قائل ہیں۔
فیصلہ
صورتِ مسؤلہ میں، بشرط صحتِ سوال:
✿ اہلِ حدیث کے نزدیک: ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے۔
✿ احناف کے نزدیک: تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔
تاہم سوال میں واضح طور پر ذکر ہے کہ شوہر تین سال پہلے طلاق دے چکا ہے، لہٰذا عدت کا وقت گزر چکا ہے۔
اب شرعی طور پر نکاح ختم ہوچکا ہے۔
چنانچہ مسماۃ جنت بی بی کو حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے، شرعی طریقے سے نکاح کر سکتی ہے، حتیٰ کہ اپنے سابق شوہر سے بھی دوبارہ نکاح ممکن ہے (بشرطِ حلالہ کی ضرورت نہ ہو)۔
البتہ قانونی تصدیق مجاز افسر سے کروانا ضروری ہے۔
مفتی صاحب کسی قانونی سقم کے ذمہ دار نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب