تین طلاق کے بعد رجوع یا نکاح کا شرعی حکم – قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 804

سوال نمبر 1

سوال:
میں نے مورخہ 91-11-24 کو اپنی بیوی مسمات منور سلطانہ کو گھریلو ناچاکی اور اختلاف کی وجہ سے ایک طلاق دی تھی۔ اس کے بعد دوسری طلاق 91-12-25 کو دی۔ اس کی عدت پوری ہونے کے بعد میں نے اس سے نکاحِ ثانی کر لیا۔ کچھ ماہ بعد پھر اختلافات کی وجہ سے تیسری طلاق مورخہ 92-07-01 کو دے دی۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنی اس مطلقہ ثلاثہ بیوی سے بچوں کے بہتر مستقبل کے پیش نظر صلح کرکے دوبارہ نکاح یا رجوع کر سکتا ہوں یا نہیں؟
براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں شرعی فتویٰ ارشاد فرمائیں۔

سوال نمبر 2

سوال:
میری بیٹی مسمات زہراں بی بی کا نکاح تقریباً 3 سال 2 ماہ قبل محمد عارف ولد جان محمد قوم چنگڑ، محلہ سلطان آباد، شاہ روڑ، گجرات سے ہوا تھا۔
بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ وقفے وقفے سے تقریباً ایک ماہ رہی۔ اس دوران گھریلو اختلافات کے باعث ناچاکی پیدا ہو گئی۔
شوہر نے اس تنازعے کی وجہ سے تین بار زبانی طور پر “طلاق، طلاق، طلاق” کہہ دیا۔
اب اس واقعہ کو تقریباً 3 سال 1 ماہ گزر چکے ہیں اور شوہر نے آج تک رجوع نہیں کیا۔
بیٹی اسی وقت سے اپنے والد کے پاس رہ رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ آیا شوہر کی طرف سے دی گئی تین زبانی طلاقیں شرعاً واقع ہو چکی ہیں یا نہیں؟
برائے کرم مدلل اور شرعی جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
اگر کوئی غلط بیانی ہوئی تو اس کی ذمہ داری سائل پر ہوگی۔

جواب

الحمد للہ، والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد:
بشرط صحت سوال، دونوں صورتوں میں طلاقِ بائنہ کُبریٰ واقع ہو چکی ہے۔

تعریفِ طلاقِ بائنہ کبریٰ

الطلاق البائن (الکبریٰ) ھو الطلاق المکمل للثلاث
(فقہ السنۃ، ج 2، ص 237)

یعنی طلاقِ بائنہ کبریٰ وہ ہوتی ہے جو تین طلاقوں کو مکمل کر دے۔

وضاحت

منہاج المسلم میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص مختلف مجالس میں تین طلاقیں دے دے یا پہلے سے دو طلاقیں واقع ہونے کے بعد تیسری طلاق دے دے، تو یہ بائنہ کبریٰ (یعنی بڑی جدائی والی طلاق) کہلاتی ہے۔
اس کے بعد میاں بیوی کے درمیان حرمتِ مغلّظہ واقع ہو جاتی ہے۔

اب وہ عورت اپنے سابق شوہر کے لیے حلال نہیں، جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے، اور دوسرا شوہر جماع (ہم بستری) کے بعد بغیر کسی پیشگی معاہدے یا حیلے کے طلاق نہ دے یا فوت نہ ہو جائے۔
(منہاج المسلم، ص 639-640)

قرآنِ مجید سے دلیل

فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ
(البقرہ)

ترجمہ:
“پھر اگر وہ (خاوند) اسے تیسری بار طلاق دے دے تو اب وہ اس کے لیے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کر لے۔”

امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر


أَيْ أَنَّهُ إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ طَلْقَةً ثَالِثَةً بَعْدَ مَا أَرْسَلَ عَلَيْهَا الطَّلَاقَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنَّهَا تَحْرُمُ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ، أَيْ حَتَّى يَطَأَهَا زَوْجٌ آخَرُ فِي نِكَاحٍ صَحِيحٍ، فَلَوْ وَطِئَهَا وَاطِئٌ فِي غَيْرِ نِكَاحٍ وَلَوْ فِي مِلْكِ الْيَمِينِ، لَمْ تَحِلَّ لِلْأَوَّلِ۔

(تفسیر ابن کثیر، ج 1، ص 297)

ترجمہ:
جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دو طلاقیں دینے کے بعد تیسری طلاق بھی دے دے تو وہ عورت اس پر حرام ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے شخص سے صحیح نکاح کرے اور جماع (ہم بستری) ہو۔
اگر کوئی دوسرا شخص بغیر نکاح کے وطی کرے، خواہ لونڈی ہی کیوں نہ ہو، تو وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر نکاح ہو جائے لیکن ہم بستری نہ ہوئی ہو تو بھی وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں۔

فیصلہ

چونکہ ثناء اللہ صاحب نے اپنی بیوی منور سلطانہ کو:

➊ پہلی طلاق 91-11-24 کو،
➋ دوسری طلاق 91-12-25 کو،
اور عدت کے بعد نکاحِ ثانی کرنے کے بعد
تیسری طلاق 92-07-01 کو دی —

لہٰذا یہ طلاقِ بائنہ کبریٰ واقع ہو چکی ہے۔

اب تک مسمات منور سلطانہ کسی دوسرے مرد کی شرعی بیوی نہیں بنی، اس لیے وہ ثناء اللہ صاحب پر حرام ہے۔

مفتی کسی قانونی سقم یا عدالتی پیچیدگی کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔

ھٰذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے